حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
سلوک میں سلع کی آبادی سے کیا نقصان پہنچتا تھا۔ ۱؎ مرشد و مرید کے علاوہ اسے اور کون جان سکتا ہے۔ تاہم قرینہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب مدینہ کی آبادی اس قدر معمور ہو جائے گی تو اس وقت اس کا تمدن بہت بڑھ جائے گا اور حضرت ابو ذرؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو چیز بنانا چاہتے تھے چونکہ اس کے لئے اتنی مدنیت مضر ہوتی۔ اس لئے آپ نے شام کی روانگی کا حکم دیا تھا واللہ اعلم روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ فتوحات کے بعد جب مختلف مقبوضات میں فوجی چھاؤنیاں قائم ہوئیں۔ تو حضرت ابوذرؓ نے شام کے ’’ مکتبہ‘‘ یعنی فوجی چھاؤنی میں اپنا نام لکھوایا، اور وہیں تشریف لے گئے، کب گئے، گو حافظ ابن عبد البر نے لکھا ہے کہ حضرت صدیق اکبرؓ کی وفات ہی کے بعد یہ قصہ پیش آیا، لیکن قرائن کا اقتضاء ہے کہ عمر فاروقؓ کے عہد میں جب عسکری تنظیم مقبوضات کی حفاظت کے لئے کی گئی اس وقت شام کی چھاؤنی سے آپ نے اپنا تعلق اختیار فرمایا، انساب الاشراف ------------------------------ ۱؎ البتہ کامل ابن اثیر وغیرہ مؤرخین کا یہ بیان اگر صحیح ہے کہ دمشق سے حضرت عثمانؓ کے طلبی پر جب حضرت ابوذرؓ مدینہ منورہ تشریف لائے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ مدینہ کا وہی چھوٹا ساقصبہ عہد عثمانی کے ان دنوں میں ترقی کرتے ہوئے اس نقطہ تک پہنچ گیا تھا کہ ای المجالس فی اصل جبل سلع ( یعنی کوہ سلع کے دامن میں ابوذرؓ نے دیکھا کہ نشست گاہیں بنی ہوئی ہیں) اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کتنا بڑا عظیم الشان شہر ہو گیا تھا۔ بنتے ہوئے گویا مکانات سلع کے دامن تک پہنچ گئے تھے بہرحال اس حال کو دیکھ کر حضرت ابوذرؓ پر ایک حال طاری ہوگیا اور بے اختیار زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری ہوئے بشّر اہل المدینہ لنادۃ شعواء و حرب ندکار ( بشارت سنا دو مدینہ والوں کو ایک تباہ کن لوٹ مار کیااور یاد رہ جانے والی جنگ کی) ۴۴ ج ۴ اگر یہ صحیح ہے تو ظاہر ہے کہ یزید کے زمانے میں مدینہ واقعہ حرّہ کے وقت جس بے دردی کے ساتھ لوٹا گیا کہ مسجد نبوی میں اذان تک دینے والا کوئی نہ تھا اور صحابہ کی اولاد کا قتل عام کئی دن تک ہوتا رہا یہ اسی کی طرف اشارہ تھااور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبل از قبل ابوذرؓ کو اس ہائلہ فتنے سے مطلع فرما دیا تھا۔