حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
اور اخیر میں خود اپنی چھاتی پیٹتے اور فرماتے۔ ’’ حتیٰ کہ میں بھی اپنے نفس کو مستثنیٰ نہیں کرتا۔ ‘‘ ۱؎ الغرض ’’ عجز فیہ ‘‘ کا صاف مطلب یہی ہے کہ وہ اپنے علوم اور معلومات سے مغلوب و عاجز آ گئے تھے جو کچھ جانتے تھے اس کے خلاف کرنے پر گویا قادر نہیں رہتے تھے تعجب ہے کہ امیر کرم اللہ وجہہ تو عجز فیہ علم میں عاجز آگئے فرماتے ہیں اور بعض شراح حدیث اسے عجز عنہ سمجھ کر اپنے خود ساختہ معانی کو اس پر خواہ مخواہ منطبق کرنا چاہتے ہیں اور بعضوں نے تو یہ کیا کہ جب اس لفظ پر ان کا مطلب چسپاں نہ ہوا تو انھوں نے فی کے لفظ کو عن سے بدلایا جس کا میں حاشیہ میں ذکر کر آیا ہوں۔ اور یہ بالکل سچ ہے کہ تعمیل ارشادات نبویہ میں جو نمونہ حضرت ابوذرؓ نے دنیا کے آگے پیش کیا اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے علم سے بالکل مقہور و مغلوب ہو رہے تھے۔ دنیا کی حقارت یہاں کے مال و متاع کی حقیقتوں کے متعلق حضرت ابوذرؓ کو جو کچھ کہا گیا تھا جنھیں مختصر طور پر میں اوپر نقل کر چکا ہوں اس کا مقتضیٰ تھا کہ وہ ایک خشک زاہد صحرائی بن کر زندگی گزار دیتے نہ شادی کرتے نہ بیاہ، نہ آبادیوں میں رہتے نہ اور کچھ سامان کرتے۔ لیکن میں لکھ چکا ہوں کہ اسی کے ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی سکھایا تھا کہ دنیا میں رہ کر زاہد بننے کی کوشش کرو۔ ٹھیک ؎ در کفے جام شریعت در کفے سندان عشق ------------------------------ ۱؎ طبقات