حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
مسجد کے امام اور مالک خانہ کی اجازت کے امامت کے لئے خود پیش قدمی نہ کرنی چاہئے۔ یوں بھی آدمی دوسرے کے گھر میں امامت سے شرماتا ہے خود ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کچھ امامت کرنے کا خواہ مخواہ شوق بھی نہ تھا ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ جب ربذہ جس کا ذکر آیندہ آتا ہے پہنچے وہ ایک معمولی جگہ تھی۔ اونٹوں کا چرانے والا ایک حبشی غلام چند لوگوں کے ساتھ نماز پڑھایا کرتا تھا حسب دستور وہی امامت کے لئے آگے بڑھا لیکن حضرت ابوذرؓ کو دیکھ کر پیچھے ہٹا۔ اور اشارہ کیا کہ آپ آگے بڑھیں۔ لیکن آپؓ نے فرمایا۔ کما انت۔ جس طرح کھڑے ہو کھڑے رہو یعنی امامت کراؤ۔ ایک اونٹ چرانے والے کے ساتھ آپؓ کا یہ حال ہے۔ اب عالم وارفتگی کا ایک واقعہ سنئے۔ انصاریوں کے ایک آزاد کردہ غلام ابو سعید نامی نے حضرت ابوذر، عبد اللہ بن مسعود، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی دعوت کی نماز کا وقت آیا تو مالک خانہ کے بغیر اجازت کے بڑے بڑے صحابیوں کے ہوتے ہوئے حضرت ابوذرؓ خود ہی امامت کے لئے آگے بڑھ گئے۔ حضرت حذیفہؓ نے ٹوک دیا فرمایا ابوذرؓ پیچھے ہو جاؤ۔ یعنی مالک خانہ کی اجازت کے بغیر تم خود کیسے آگے بڑھ گئے اب ہوش آیا پلٹ کر حضرت ابن مسعودؓ سے پوچھتے ہیں اکذالک ابن مسعود۔ کیا مسئلہ یونہی ہے ابن مسعود۔ انھوں نے فرمایا ہاں۔ سنتے ہی آپ پیچھے ہو گئے ( بیہقی ص ٦۷ ج ۳ ) کیا حضرت ابوذرؓ کے ان حالات کی یہ تاویل نہ کی جائےتو یہ کیا مان لیا جائے وہ بھی اس زمانہ کے ان عالموں میں تھے جن کو خواہ مخواہ امامت کا شوق ہوتا ہے۔ ہاں قصدًا ہوش و حواس رکھتے ہوئے اگر کوئی ان باتوں کا ارتکاب کرے گا خواہ نفل ہی کیوں نہ ہو تو یہ یقینًا ناجائز ہے کہ دین کے ساتھ تلاعب