تذکرہ مجمع البحار |
ہم نوٹ : |
|
تھے اور پیر کو داخل ہوئے 22یا23 منٹ ہوچکے تھے۔اور خانقاہ کے اندر اور باہرآہ وبکا اورسسکیوں کی آوازیں گونج رہی تھیں اور لوگ ایک دوسرے سے لپٹ کررورہے تھے، مجھے مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کایہ شعر یاد آرہا تھا ؎ تو چناں خواہد خدا خواہد چنیں می دہد یزداں مراد متقیں تو جو چاہے گا وہی اللہ تعالیٰ چاہیں گے، اللہ تعالیٰ اپنے متقین بندوں کی مراد پوری فرماتے ہیں۔ تواللہ تعالیٰ نے بھی میرے شیخ کی مراد کوپورافرمایا اور پیر کے دن موت عطا فرمائی ۔ وفات کے وقت حضرت کے کمرہ میں یہ احباب موجودتھے:حضرت میر عشرت جمیل صاحب مدظلہٗ بھائی مطہرمحمود لاہوری صاحب، مولوی برکت اللہ صاحب بہاول نگری، حافظ ضیاء الرحمٰن صاحب امریکی، ڈاکٹرایوب صاحب،بھائی فیروز میمن صاحب، ڈاکٹرامان اللہ صاحب ،ڈاکٹر عارف صاحب، ڈاکٹرعمرصاحب، ڈاکٹر اظہر صاحب، بھائی قمرالزمان صاحب (بنگلہ دیشی)، قاری احمدمیاں تھانوی صاحب،خالد بھائی (نواسہ حضرتِ والا)، شعیب بھائی (نواسہ حضرتِ والا)، بھائی بلال صاحب، نور الزمان صاحب (بنگلہ دیشی)، بھائی عمران صاحب۔ بندہ عرض کرتاہے کہ جمعہ کے دن کی موت خائفین کے لیے ہے اور پیر کے دن کی موت عاشقین کے لیے ہے۔ حضرت شیخ کو غسل دینے کی تیاری شروع ہوگئی اور اس بات کا اہتمام کیاگیا کہ ہرچھوٹے سے چھوٹا عمل بھی سنت کے مطابق ہو۔چناں چہ غسل کی ذمہ داری حضرت کے پوتے مولانا اسحاق صاحب اور حضرت کے خدام حافظ ضیاء الرحمٰن صاحب،مولوی برکت اللہ صاحب ،بھائی مطہر محمود صاحب پرعائد کی گئی اور ان کے تعاون کے لیے اور شرعی ہدایات کے لیے مفتی ارشاد احمدصاحب ،مفتی غلام محمدصاحب اور بندہ کو مقرر کیاگیا۔ تقریباً ساڑے دس بجے حضرت کو غسل اور کفن دے کر خانقاہ میں زیارت کے لیے پہنچادیاگیا۔بندہ ان خدمات ولمحات کواپنے لیے نجات کاذریعہ سمجھتا ہے ۔