تذکرہ مجمع البحار |
ہم نوٹ : |
|
مجلسِ وعظ وارشاد حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس علم اور روحانیت کامرقع ہوتی تھی۔ جہاں نفوس کا تزکیہ ہوتاتھا وہیں علمی ارتقاء بھی نصیب ہوتاتھا۔آپ مضامین کو قرآن وحدیث سے مدلل اورمزین فرماتے،اورفرماتے اکابرکی باتوں کو میں نے قرآن وحدیث سے مدلل کردیاہے اورحوالہ باقاعدہ عربی عبارت کے ساتھ دیتے تھے اسی لیے آپ کے حلقۂ محبت میں اہلِ علم کی بہت کثرت ہے ۔ حضرت کے اکثرمضامین الہامی ہوتے تھے اورطالبین کی ضرورت کے مطابق مضامین القاء ہوتے تھے۔اس لیے فرمایاکرتے تھے توجہ سے میری بات سنو! کیوں کہ سامعین کی طلب کے مطابق مضمون آتاہے جیسے بچہ جب روتاہے اور دودھ طلب کرتاہے توماں کاخون شیراوردودھ میں تبدیل ہوجاتاہے۔ جس طرح برمحل اوربرموقع آپ الفاظ لایاکرتے تھے وہ آپ کاخاصہ تھا۔آپ کے وعظ وبیان میں اس بات پر نظرمرکوز ہوتی تھی کہ سامعین کے دل میں بات بیٹھ جائے۔ اورنہایت درد سے فرماتے کس طرح میں اپنادل تمہارے سینوں میں ڈال دوں، لیکن پھربھی آپ کابیان جتنافصیح وبلیغ اورحسین الفاظ کامرقع ہوتا آدمی حیران رہ جاتا ۔فرماتےمیں تکلفاً یہ الفاظ نہیں لاتا بلکہ خود بہ خود یہ الفاظ سامنے آجاتے ہیں۔ فرمایاکرتے تھے کہ الفاظ بھی ہاتھ جوڑکرمیرے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ آپ کابیان بہت پُردرداوراثرانگیزہوتاتھا جس کااثرہر سامع واضح طورپرمحسوس کرتاتھا خود ارشاد فرماتے ہیں ؎ کس قدر دردِ دل تھا میرے بیاں کے ساتھ گویا کہ میرا دل بھی تھا میری زباں کے ساتھ اوراس میں خاص قسم کی قربِ الٰہی کی چاشنی محسوس ہوتی گویاکہ کانوں میں رس گھولاجارہاہے۔ خود فرماتے ہیں ؎