تذکرہ مجمع البحار |
ہم نوٹ : |
|
حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ حضرت مولانا محمداحمد صاحب پرتاب گڑھی قدس سرہٗ سلسلہ نقشبندیہ کے سب سے قوی النسبت بزرگ تھے اور مقامِ قطبیت پر فائز تھے۔ اور نہایت درد سےاشعارپڑھتےتھےآپ کےیہاں نسبت اشعارسےمنتقل ہوتی تھی۔ حضرتِ والا کا ذوقِ شاعری حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت کا تربیت یافتہ ہے۔ اسی دوران حضرت شیخ کی زندگی کا پہلا شعر ہوا، جو آپ کی آتش ِ غمِ نہانی کی ترجمانی کرتا ہے ؎ دردِ فرقت سے مرا دل اس قدر بے تاب ہے جیسے تپتی ریت میں اِک ماہی بے آب ہے آپ نے حضرت پرتاب گڑھی رحمۃ اللہ علیہ سے خلافت بھی پائی۔بیعت و ارادت پھرحضرت شیخ کو علم ہوا کہ پھولپور میں حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے اجل خلیفہ حضرت مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوریرحمۃ اللہ علیہ مقیم ہیں۔ایک دوست نے حضرت شاہ عبد الغنی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں چشم دید کیفیات ِ درد ِ محبت وعشق ودیوانگی کا حال بیان کیا تو حضرت شیخ کو ان کی طرف دل میں بہت کشش محسوس ہوئی اور بہت زیادہ مناسبت معلوم ہونے لگی اور شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہکو اپنا مرشد ومصلح منتخب کرنے کافیصلہ کیا۔حضرت شیخ نے حضرت شاہ عبد الغنی رحمۃ اللہ علیہ کو جب پہلا خط لکھا تو اس میں یہ شعر تحریر کیا ؎ جان و دل اے شاہِ قربانت کنم دل ہدف را تیر مثرگانت کنم اے شاہ میں جان و دل آپ پر قربان کرتا ہوں ۔ حضرت شاہ عبد الغنیرحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں لکھا :’’آپ کا مزاج عاشقانہ معلوم ہوتا ہے اور اہلِ عشق اللہ کاراستہ بہت جلد طے کرتے ہیں ،محبتِ شیخ مبارک ہو ، محبت ِشیخ تمام مقامات ِ سلوک کی مفتاح ہے۔‘‘اور اپنے حلقۂ ارادت میں قبول فرما لیا اور ذکر و اذکار تلقین فرمائے۔