تذکرہ مجمع البحار |
ہم نوٹ : |
|
کے حکم کی تعمیل میں حضرتِ والا پھر گھر پر ہی تہجد پڑھنے لگے۔ان حالات کو دیکھ کر والد صاحب آپ کا نام لینے کے بجائے مولوی صاحب کہنے لگے اور ان کے دوست بھی آپ کو دُرویش اور فقیر کہتے تھے۔ واقعی کسی نے سچ کہا ہے ؎ زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھومثنوی مولانا رومی سے استفادہ اسی دورِ نابالغی میں مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کی مثنوی شریف سے والہانہ شغف ہو گیا تھا۔حضرتِ والا کے قرآنِ پاک کے استاد بڑی ہی درد ناک آواز میں مثنوی شریف پڑھتے تھے،قرآنِ پاک پڑھنے کے بعدحضرتِ والا ان سے درخواست کرتے تھے کہمثنوی شریف سنائیں تو وہ نہایت درد بھری آواز میں مثنوی شریف پڑھ کرحضرت کے قلب کو تڑپا دیتے تھے، اسی وقت سے حضرت مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ سے حضرتِ والا کو بے پناہ محبت ہو گئی تھی اورمثنوی شریف سمجھنے کے شوق میں فارسی تعلیم شروع کر دی تھی حضرتِ والا اکثر فرماتے ہیں کہ میرے شیخِ اوّل تو مولانا رومیرحمۃ اللہ علیہ ہیں جن سے میرے قلب ِ مضطر کو بہت تسکین ملی اور اللہ تعالیٰ کی محبت کا درداوّلاً مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ سے ہی حاصل ہوا ،اسی زمانے میں مثنوی شریف کے اشعار پڑھ پڑھ کر رویا کرتے تھے ، خصوصاً یہ اشعار ؎ سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق تا بگویم شرح از دردِ اِشتیاق اے خدا! تیری جدائی کے غم میں میں اپنا سینہ پارہ پارہ چاہتا ہوں تاکہ تیری محبت کی شرح درد ِ اشتیاق سے بیان کروں ؎ ہر کہ را جامہ ز عشقے چاک شد او ز حرص و عیب کلی پاک شد عشقِ حقیقی کی آگ سے جس کا سینہ چاک ہوگیا وہ حرص و ہوس ، عُجب وکبر ، حب دنیا ، حب جاہ ، کینہ و حسد وغیرہ جملہ رذائل سے پاک ہو گیا ؎