تذکرہ مجمع البحار |
ہم نوٹ : |
|
اور ابتداء میں اس بات پربڑاتعجب ہوتاتھا کہ ہم بندے ہو کر اﷲ تعالیٰ کے کیسے دوست بن سکتے ہیں اور آنکھوں سے ماوراء ذات کی محبت کیسے آسکتی ہے؟ لیکن کچھ عرصہ بعد دل میں اﷲ تعالیٰ کی محبت کی مٹھاس محسوس ہونے لگی اورپھر تویہ کیفیت ہوگئی کہ ایسامحسوس ہوتاتھا کہ اﷲ تعالیٰ دوست ہیں اور ساتھ ہیں، جوبھی درخواست کرتے قبول ہوجاتی۔ذکرکی کیفیت بندہ کاتہجد میں بالاہتمام اٹھنے کامعمول نہیں تھا کبھی کبھار پڑھ لیتایا سونے سے پہلے پڑھ لیتاتھالیکن فجرکےبعداشراق تک مسجد میں رہنے کامعمول تھا، فجرکے بعد حضرتِ والا کابتایاہواذکر کیاکرتاتھا اور اس ذکرمیں کیفیت یہ ہوتی تھی کہ جب لَااِلٰہَکہتا تونیوٹاؤن کی مسجد غائب ہوجاتی اور جب اِلَّا اللہْ کہتا توپھرنظر آنے لگتی۔ کچھ عرصہ یہ کیفیت رہی ا ور حضرتِ والاکی محبت کابھی بڑاجوش ہوتا۔ ایک مرتبہ ایسے محسوس ہوا جیسےحضرتِ والاکی محبت ختم ہوگئی توطبیعت بہت پریشان ہوئی حالاں کہ دورانِ ہفتہ دورکہیں جاناجامعہ کے نظم کی وجہ سے بہت مشکل تھا لیکن ایسی اضطراری حالت طاری ہوئی کہ ایک دن شام کی چھٹی ہوتے ہی گلشن اقبال جانے کے لیے روانہ ہوا عصر کی نماز تک پہنچ گیا۔عصر حضرتِ والاکے ساتھ ادا کی،عصر کے بعدحضرتِ والا موڑھےپرتشریف فرماہوئے میں بھی دوسرے موڑھے پربیٹھ گیا اور میں نے اپنے دل کی بات کہی توحضرتِ والابہت ہنسے اور ہنس کرفرمایا کہ تم سے ذکرمیں سستی ہورہی ہے اس لیے شیخ کاتعلق کمزور محسوس ہوتا ہے اور واقعی ان دنوں میں اس میں کچھ سستی پائی جارہی تھی اس کے بعد حضرتِ والاگھر تشریف لے گئے اورخود چائے بنواکرلائے اور چائے پلائی اس وقت دل کی کیاکیفیتتھی اس کو الفاظ میں بیان کرنامشکل ہے۔اس کے بعد ذکرکااہتمام کیا تواس قدر حضرت کی محبت نے جوش مارا کہ جمعہ سے پہلے ہی دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر تھوڑی دیر کے لیے زیارت کرکے واپس آیا۔