تذکرہ مجمع البحار |
ہم نوٹ : |
|
بھی صاحبِ نسبت ہے ۔ ۱۹۶۰ء میں جب حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے پاکستان ہجرت کی تو آپ ساتھ آئے لیکن اپنی اہلیہ اور فرزند مولانامحمد مظہر میاں صاحب دامت برکاتہم کو جو اس وقت بچے تھے ہندوستان میں چھوڑ آئے اورقلتِ وسائل کی وجہ سے ایک سال تک نہ بال بچوں کو پاکستان بلاسکے اور نہ خود جا سکے۔یہ ایک سال حضرت پیرانی صاحبہ نے بڑے مجاہدے میں گزارا لیکن کبھی شکایت لکھ کر بھی نہیں بھیجی، بس ایک خط میں بچے کی شدید علالت کا تذکرہ کیا اور دعا کے لیے عرض کیا، واپسی کا مطالبہ اور شکایت پھر بھی نہ لکھی ؎ گزر گئی جو گزرنا تھی دل پہ پھر بھی مگر جو تیری مرضی کے بندے تھے لب ہلا نہ سکے حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک وہ اس دور کی رابعہ بصریہ تھیں۔ اور ایک راز کی بات بتاتا ہوں کہ ان کے حالاتِ رفیعہ کی وجہ سے میں ان کاہمیشہ سے اتنا معتقد ہوں کہ ان کے وسیلہ سے اب بھی دعا کرتا رہتا ہوں۔ انتقال سے دو تین دن پہلے گھر کے افراد کو اور عیادت کے لیے آنے والی عورتوں کو کئی بار ان کے قریب ایسی خوشبو محسوس ہوئی جو زندگی بھر کبھی نہیں سونگھی تھی۔ اور وفات کے بعد مبشراتِ منامیہبھی ان کے لیے بہت ہیں۔جنوبی افریقہ کے مفتی حسین بھیات صاحب مدظلہم نے انتقال کے اگلے دن خواب میں دیکھا کہ وہ جنت میں داخل ہونا چاہتے ہیں تو فرشتہ نے ان کو روک دیا کہ ابھی نہیں، اورپیچھے حضرت پیرانی صاحبہ آرہی تھیں تو فرشتہ نے ان کو راستہ دے دیا اور وہ جنت میں داخل ہو گئیں، اس کے علاوہ بھی بہت مبشرات ہیں لیکن یہ اس کا موقع نہیں۔ پیرانی صاحبہ رحمہااللہ نے ۱۹۹۸ء میں انتقال فرمایا۔حضرت شیخ پھولپوری کی شانِ عاشقا نہ حضرت شیخ نے اپنے شیخ کی کیفیاتِ عشق و دیوانگی کا نقشہ ان اشعار میں کھینچا ہے ؎ ہم نے دیکھا ہے تیرے چاک گریبانوں کو آتشِ غم سے چھلکتے ہوئے پیمانوں کو