تذکرہ مجمع البحار |
ہم نوٹ : |
|
دواہم باتیں حضرتِ والاسے ابتدا ہی سے دو اہم باتیں قلب میں بیٹھ چکی تھیں، ایک مطمعِ نظر اور مقصود صرف شیخ کی ذات کوبنایا جائے،لہٰذایہی وجہتھی کہ خانقاہ کے وہ لوگ جودنیاوی پیشہ سے متعلق تھے ان میں سے کسی سے تعارف نہیں تھاحتّٰی کہ میر صاحب سے بھی اور اس معاملے میں اس قدرڈرتے تھے کہ بیان کے بعد اگرکوئی کار والاساتھی یہ پیشکش کرتا کہ ہمارے ساتھ بیٹھ جاؤ کہ بس سٹاپ تک پہنچادیں توساتھ نہیں بیٹھتے تھے کہ کہیں حضرتِ والا کو علم ہوجائے تووہ سمجھیں گے کہ کار وا لوں سے دوستی لگاتاہے، اس لیے ہمیشہ حضرت شیخ کی ذات کوہی مطمع نظربنائے رکھا، بعد میں معلو م ہوا کہ اہل اﷲ کے ہاں اس کو وحدتِ مطلب کہتے ہیں ۔ دوسری اہم بات یہ سیکھی کہ اﷲ والوں کے ایام فتوحات نہیں دیکھنےچاہئیں بلکہ ایام مجاہدہ دیکھنےچاہئیں اور اسکی اتباع اور تقلید کرنی چاہیے اس سے اہل اﷲ پر کبھی بدگمانی نہیں ہوتی۔الحمدﷲ!اس بات کی برکت سے اپنے شیخ یاکسی استاد یاکسی اﷲ والے پر دنیوی مال و اسباب کاراستہ کھلنے کی وجہ سے بدگمانی نہیں ہوئی۔اور یہ سنت اﷲ ہے کہ جب کوئی اﷲ تعالیٰ کے لیے تکلیف اورمجاہدے برداشت کرتاہے تواللہ تعالیٰ اس پر روحانی دولت کے دروازے کھولنے کے ساتھ ساتھ دنیوی آسایش وراحت کے دروازے بھی کھول دیتاہے۔لہٰذاکبھی کسی اﷲ والے پردنیوی اسباب کی کثرت دیکھ کر بدگمانی کرکے اپنے آپ کوہلاکت میں نہیں ڈالناچاہیے۔بعض اہلِ دل کاتعارف اورزیارت حضرتِ والادامت برکاتہم سے مواعظ میں یہ بات سنی کہ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے پانچ خلفاء بقید حیات ہیں۔ ایک حضرت ڈاکٹر عبدالحی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کراچی میں، دوسرے حضرت مولانامسیح اﷲ خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ جلال آباد انڈیا میں، تیسرے حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہردوئی شریف انڈیا میں،