تذکرہ مجمع البحار |
ہم نوٹ : |
|
گناہ کے تقاضے تقویٰ تو گناہ کے تقاضوں پر ملے گا کیوں کہ تقویٰ نام ہے کَفُّ النَّفْسِ عَنِ الْہَوٰی کہ نفس کو روکنا حرام خواہشوں سے، خواہشیں پیدا ہوں گی تو روکی جائیں گی اگر کوئی شخص جنگل میں رہتا ہے اس میں ہویٰ ہے ہی نہیں تو متقی کیسے بنے گا اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ لَارَہْبَانِیَّۃَ فِی الْأِسْلَامِ؎ کہ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے ۔ پھر فرمایا ؎ نہیں ناخوش کریں گے رب کو تیرے کہنے سے اے دل اگر یہ جان جاتی ہے تو خوشی سے جان دے دیں گےشیخ سے استفادہ میں لاپروائی ارشاد فرمایا کہ جو بیٹا باپ کی زندگی میں نہیں کماتا بلکہ باپ کی کمائی پر تکیہ کرتا ہے تو اسے باپ کے مرنے کے بعد پچھتانا پڑتا ہے اس طرح جو مرید شیخ پر تکیہ کرتے رہتے ہیں جب شیخ فوت ہو جاتا ہے تو پھر انہیں ہوش آتا ہے لیکن پھر کچھ نہیں ہو سکتا ؎ اڑ گئی چڑیا رہ گیا پَر ہاتھ میں اس لیے شیخ کی زندگی میں تزکیہ کروالو ۔اچانک نظر سے بھی احتیاط اچانک نظر اور غیر شعوری نظر بازی سے بھی بچو،یہ بھی نقصان دہ ہے، جس طرح کوئی گلاب جامن میں جمال گوٹا ڈال دے تو گناہ تو نہ ہو گا لیکن ہگنا تو پڑے گاپھر فرمایا کہ سفر میں ذکر میں مشغول رہو اور آنکھیں بند رکھو ،جس کو مولیٰ کا سہارا حاصل نہیں وہ لیلیٰ کا سہارا لیتا ہے۔ندامت کے آنسو ارشاد فرمایا کہ جب آندھی چل رہی ہو تو کچھ نہ کچھ کپڑا گندا ہو ہی جاتا ہے لہٰذا اسے جلد ------------------------------