تذکرہ مجمع البحار |
ہم نوٹ : |
|
چوں کہ وہ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ؎ہے اور دنیا کی شراب (مراد دنیا کی نعمتیں )نہ ازلی ہے نہ ابدی بلکہ بہت گھٹیا ہے،اس لیے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پوری دنیا کی قدروقیمت اللہ تعالیٰ کے ہاں اگر مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو ایک قطرہ پانی بھی نہ ملتا۔اہل اللہ کے پاس جانے کا مقصد اہل اللہ کے پاس کمیات کے لیے نہ جائے کیوں کہ کمیات میں فرق نہیں ہوتا وہ بھی اتنی ہی فرض نماز کی رکعتیں پڑھتے ہیں جتنی عام مسلمان پڑھتے ہیں، لیکن کیفیات میں فرق ہے، اہل اللہ جب سجدہ کرتے ہیں تو اپنا جگر رکھدیتے ہیں اور اپنی روح کی صورتِ مثالیہ کو رکوع سجود کرتے دیکھتے ہیں لہٰذا اہل اللہ کے پاس کیفیاتِ احسانیہ میں ترقی کے لیے جائے کیوں کہ ان میں منتقل ہونے کی شان ہوتی ہے ۔ حضرت شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ احسان کا معنیٰ ہے حسین کرنا۔یہ کیفیات اسلام اور ایمان کو حسین کردیتی ہیں۔نفس کا خون فرمایا کہ شیر جنگل کا بادشاہ ہے کیوں کہ وہ جانوروں کا خون پیتا ہے لہٰذا کتنا طاقت ور ہے، حالاں کہ شیروں کی تعداد کم ہوتی ہے لیکن جنگل پر بادشاہت کرتے ہیں اسی طرح جو اپنے نفس کا خون پیتا ہے وہ روحانی طور پر بہت طاقتور ہوتا ہے بادشاہت کرتا ہے۔ جس نے اس نفس کا خون نہیں پیا اس نے اس شخص کا روحانی خون پی اور لیا چاروں شانے چت گرادیا، جب اس نفس کا خون پیا جاتا ہے تو اللہ والوں کو دھڑام سے گرتا ہوا نظر آتا ہے، ایسا دیوانہ جو خونِ آرزو پیتا ہے وہ ایک بھی ہو سارے عالم کو بیدار کیے رہتا ہے ؎ ہر نفس پیتا ہو خونِ آرزو ایسا دیوانہ خدارا چاہیے ------------------------------