تذکرہ مجمع البحار |
ہم نوٹ : |
|
جب یہ مقام آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اللہ تعالیٰ کے نام کی عظمت اور اللہ تعالیٰ کے نام کی لذت کو الفاظ و لغت بیان کرنے سے قاصر اور مجبور ہوجاتے ہیں اس وقت اختر آہ و زاری اشکباری اور گریہ وزاری کرنے لگتا ہے کہ اے اللہ تعالیٰ!الفاظ تو قاصر ہوگئے آپ اپنے نام کی لذت و حلاوت ہمارے دلوں میں ڈال دیجیے پھر کسی الفاظ و لغت کی ضرورت نہ ہوگی۔سایۂ مرشد نعمتِ عظمیٰ ہے ارشاد فرمایا کہ میرے شیخ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق رحمۃ اللہ علیہ جب کراچی سے ہردوئی تشریف لے جانے لگے اس وقت میں نے حضرتِ والاکو یہ شعر سنایا ؎ شیخ رخصت ہوا گلے مل کے شامیانے اجڑ گئے دل کے حضرتِ والا خوش ہوگئے اور احقر کو تنہائی میں بلا کر ایک نعمت دے کر چلے گئے جو میں نہیں بتاؤں گا ۔ حضرت میر صاحب نے عرض کیا کہ اگر حضرتِ والا بتا دیں تو ہم لوگوں کو فائدہ پہنچ جائے گاتو حضرت شیخ نے فرمایا کہ حضرتِ والا نے میرے اسفار پر پابندی لگادی تھی وہ بحال فرما دی۔اور پابندی لگانا بھی شیخ کی شفقت ہے۔ حضرتِ والانے دیکھا کہ میرے خلیفہ کو ساری دنیا میں بلایا جارہا ہے ایسا نہ ہو کہ اس کے دل میں عجب پیدا ہوجائے ۔ شیخ کی شفقت کبھی گوارانہیں کرتی کہ میرا مرید ہلاک ہو جائے اسی لیے کبھی ڈانٹ ڈپٹ کرتا ہے اور کبھی تحریر و تقریر پر پابندی لگا دیتا ہے ۔ لیکن یہ شعر سن کر حضرتِ والا کو یقین ہوگیا کہ جو شیخ کا عاشق ہوتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ ضایع نہیں کرتا۔ ضایع وہی لوگ ہوئے جن کے سر پر کوئی بڑا نہیں تھا۔ جس کار پر کسی کا پاؤں نہ ہو یعنی کار کا کوئی ڈرائیور نہ ہو وہ جہاں تک سیدھا راستہ ہوگا جائے گی۔ لیکن جہاں موڑ آئے گا وہیں ٹکراجائے گی۔ جن کی گردن پر کسی شیخ کا پاؤں نہیں تھا وہ کچھ دور تک تو صحیح چلے لیکن کہیں جاہ کے کہیں باہ کے موڑ پر تصادم کر بیٹھے اور پاش پاش ہوگئے۔ خود بھی تباہ ہوئے اور جو اُن کے ساتھ تھے وہ بھی تباہ ہوئے۔ جاہ اور باہ کے موڑوں پر شیخ ہی مرید کو سنبھالتا ہے۔ ( ماخوذ از انعامات ربانی )