تذکرہ مجمع البحار |
ہم نوٹ : |
|
عارف باﷲ حضرت مولانا الشاہ حکیم محمداخترصاحب کی خدمت میں بندہ کو طالب علمی میں مسابقت کابہت جذبہ تھا۔ اگرکسی طالب علم کو کوئی نئی کتاب یاشرح یا تفسیر یاتعلیم کی مناسبت سے کوئی کام وغیرہ کرتے دیکھتا تواسے اپنانے کی کوشش کرتا،دل میںیہ بات رہتی تھی کہ علم وعمل کاکوئی پہلو جویہاں سیکھا جاسکتا ہے وہ رہ نہ جائے کیوں کہ طالب علمی اسی لیے اختیار کی تھی۔ ایک دن درجہ ثالثہ والے سال عصر کی نماز کے بعد دعاکے بعد کچھ دیر مسجد میں بیٹھا رہا جب مسجد خالی ہوگئی تومیں کھڑاہوا اور مسجد کے قبلہ رخ کھڑکی سے سامنے کے باغیچے میں جھانکا تو دیکھا کہ ایک ہم جماعت ساتھی (مولانا جنیداحمد) خاص طریقے پرقبلہ رخ بیٹھے ذکرکررہےتھے، میں کافی دیران کو دیکھتا رہا مجھے ان کاطریقہ بہت پسند آیا،رات کو تکرار کے بعد میں اس طالب علم کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ تم کیا کررہے تھے۔ اس نے کہا کہ میں اﷲ تعالیٰ کا ذکرکررہا تھا۔ میں نے دریافت کیاکہ تم نے یہ طریقہ کہاں سے سیکھا تواس نے بتایا کہ گلشن اقبال میں ایک بزرگ آئے ہیں جن کا نام مولانا شاہ حکیم محمداخترصاحب ہے وہ ذکر اذکار بتاتے ہیں۔تومیں نے ان کا پورا پتا لیا اور ملاقات کاوقت پوچھا توانہوں نے بتایا کہ جمعۃ المبارک کے دن نوسے دس بجے حضرت کاوعظ ہوتا ہے اور ملاقات ہوتی ہے۔ میں نے ان کی زیارت اور ملاقات کے سلسلے میں اپنے ہم جماعت دوست مولوی ایوب ولی پٹیل( برطانوی) اورمولوی سید امتیاز( کراچوی) سے مشورہ کیا۔ تومولوی امتیاز صاحب نے بتایاکہ میں ان کو جانتاہوں۔چناں چہ جمعۃ المبارک کوحضرتِ والاکی خدمت میں پہنچے۔ حضرت ابھی حجرے میں تھے اور پچیس تیس سامعین خانقاہ میں بیٹھے تھے اور حضرت کے بیٹھنے کے لیے سامنے صوفہ رکھا ہواتھا۔ تقریباًنوبجے حضرتِ والااپنے حجرے سے باہرتشریف لائے،دورکعت نماز پڑھی اورپھرمسند پر جلوہ افروز ہوئے۔