تذکرہ مجمع البحار |
ہم نوٹ : |
|
جو تھے نوری وہ گئے افلاک پر مثل تلچھٹ رہ گیا میں خاک پر بلبلوں نے گھر کیا گلشن میں جا اور بوم ویرانے میں ٹکراتا رہا جس دن طبیہ کالج سے فارغ ہوئے اور پھوپھی کے گھر پہنچے تو گھر سے اطلاع ملی کہ والد گرامی کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔غم کا ایک پہاڑ ٹوٹا اور قلب کو شدید غم پہنچا لیکن اپنے آپ کو سنبھالااور قبرستان تشریف لے گئے ، قبروں کو نگاہِ عبرت سے دیکھا اور دل کو سمجھایا کہ یہی سب کی منزل ہے اور حق تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا ہی عین عبدیت ہے ۔تلاشِ مرشد حضرت اقدس رحمۃ اللہ علیہبچپن ہی سے بطریق ِجذب آتشِ عشقِ الٰہی سے نوازے گئے تھے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد سلسلہ تھانوی کے کسی ایسے شیخ اورمصلح کی تلاش میں رہے جو سراپا درد ِعشق و محبت اور سوختہ جان ہو۔ اسی دوران الٰہ آباد میں حضرت مولانا شاہ فضل رحمٰن صاحب گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کےسلسلہ کے ایک بزرگ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے اور روزانہ عصر سے رات گیارہ بجے تک حضرت کی خدمت میں رہتے ۔ حضرت مولانا محمداحمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ زبردست صاحب ِ نسبت اور سراپا محبت تھے اور حضرتِ والا سے بے انتہا محبت اور شفقت فرماتے تھے۔حضرتِ والا اگر کبھی رات کا قیام فرماتے تو حضرت مولانا محمداحمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ گھر سے اپنا بستر باہر خانقاہ میں لے آتے اور فرماتے کہ یہاں بڑے بڑے علماء آتے ہیں لیکن میں کسی کے لیے گھر سے باہر بستر نہیں لاتا صرف آپ کے لیے گھر سے باہر آ کر سوتا ہوں۔ایک خط میں تحریر فرمایا کہ آپ کو مجھ سے جیسی محبت ہے دنیا میں مجھ سے ایسی محبت کرنے والا کوئی دوسرا نہیں ۔ بقول حضرت مولانا مفتیمحمود