تذکرہ مجمع البحار |
ہم نوٹ : |
|
کو آکسیجن دی جارہی تھی، ڈاکٹرصاحبان اپنی پوری کوشش میں لگے ہوئے تھے بندہ نے حضرت کے سرکو دبانا اورسہلانا شروع کردیا۔ حضرت مولانا محمدمظہرمیاں صاحب دامت برکاتہم اور ان کے صاحبزادگان مولاناابراہیم میاں صاحب ،مولانااسماعیل صاحب اور مولانااسحاق صاحب آکسیجن تھیلی کے ذریعے حضرت کوسانس لینے میں مدد دے رہے تھے اور ان حضرات کی آنکھوں سے آنسورواں تھے اور سب لوگ گھٹی گھٹی آواز سے رو رہے تھے۔ بندہ نے گھڑی پرنظر کی تو پیرکے داخل ہونے میں بیس منٹ باقی تھے۔ دل کو کسی چیز نے پکڑ لیا۔ حضرت کی کھلی آنکھیں بھی گھڑی کی طرف تھیں اور دل نے کہا کہ حضرت پیر ہی کاانتظار کررہے ہیں، حضرت کی آنکھوں سے ایک دو آنسو آپ کے گال پر لڑھک گئے جوبندہ نے ہاتھ سے پونچھ کر اپنے چہرے پرمل لیے اور شدتِ جذبات سے حضرت کی پیشانی پربوسہ دیا۔سات بجکر بیس منٹ پر جب مغرب کی اذان ہوئی توبندہ نے حضرت کے چند خدام کے ساتھ خانقاہ کے اندر ہی حضرت کے پاس باجماعت نماز پڑھ لی اورباقی حضرات مسجد چلے گئے۔ نما ز پڑھ کر پھر دوبارہ بندہ حضرت کے سر کودبانے اورسہلانے لگا توسکرات کے آثار شروع ہوگئے اورسانسوں میں وقفہ ہونے لگا۔ حضرت کی پیشانی مبارک جودبانے اورسہلانے سے خون کے اثرکی وجہ سے سرخ ہورہی تھی اچانک نورانی ہونا شروع ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے زرد نورانی رنگ پھیل گیا ؎ عاشقان زرد رو کی چشم نم میں صبح دم ان کے جلوؤں کا یہ رنگ ارغوانی دیکھیے (حضرت شاہ حکیم محمداخترصاحب رحمۃ اللہ علیہ) اتنے میں حضرت کے صاحبزادے حضرت مولانامظہر میاں صاحب دامت برکاتہم مسجد سے مغرب کی نماز پڑھ کر واپس تشریف لے آئے توحضرت آخری سانسوں پرتھے اورچندمنٹ بعدپورے عالمِ اسلام کو یتیم چھوڑ کر عالمِ بالا کی طرف رحلت فرماگئے۔ اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ اور زرد نور پورے چہرے پرپھیل گیا اور ایک خاص اطمینان وسکون چہرے پرہویداہوا جیسے تھکا مسافر اپنی منزل پرپہنچ گیاہو۔ میں نے گھڑی پر نظر کی تو 7بجکر 42منٹ