تذکرہ مجمع البحار |
ہم نوٹ : |
|
۱۹۹۷ءمیں میرے مربی و شیخ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمداخترصاحب رحمۃ اللہ علیہ بہاول نگر تشریف لائے توجامع مسجد نادرشاہ بازار میں فجر کے بعد بیان میں یہ بات ارشاد فرمائی کہ مولاناجلیل احمد کے والد مرحوم مولانا نیاز محمدختنی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں پتا چلاہے کہ وہ پیر کے دن مرنے کی تمنا رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی تمنا پوری فرمادی، میں بھی یہ تمنا کرتاہوں کہ میری موت بھی پیر کے دن ہو۔ اسی دن یہ یقین ہوچلاتھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس پیارے بندے کی مراد کو پورافرمائیں گے۔ میرے مربی وشیخ اگرچہ ۲۰۰۰ء سے بستر علالت پر تھے اوراس حالت میں بھی آپ کا فیضان ہرطرح سے جاری و ساری تھالیکن کچھ عرصہ سے بیماری شدت اختیار کرتی جارہی تھی ہر پیر کے دن دل ڈرتا رہتاکہ کوئی غمناک واقعہ پیش نہ آجائے۔ بندہ چوں کہ کراچی سے 700کلومیٹر دور بہاول نگر کارہائشی ہے، اس دوری کی وجہ سے ہمیشہ احساسِ محرومی رہتا تھا لیکن ان دنوں میں ہر وقت دل پریہ غم چھا یارہتا کہ اس دوری میں حضرت شیخ کوکچھ ہوگیا تو یہ کسک کبھی بھی دل سے نہ جائے گی۔ ۲۹؍مئی کوبیماری کی شدت کی اطلاع ملی تورختِ سفر باندھا اورجمعرات ۳۰؍مئی کوکراچی حاضر ہوگیا۔اگرچہ حضرت پربار بار بیماری کا حملہ ہورہا تھا لیکن جوں جوں پیرکادن قریب آتاجارہا تھاتواندیشے بڑھتے جارہے تھے۔اس سے پہلے بھی حضرت شیخ اپنے صاحبزادے حضرت مولانا حکیم محمد مظہر میاں صاحب دامت برکاتہم سے کئی بار پوچھ چکے تھے ’’آج کون دن ہے‘‘ (یہ حضرت کا خاص انداز تھا )تومولانا فرماتے: بدھ ہے یاجمعہ ہے جوبھی دن ہوتا، تو آپ نفی میں سرہلادیتے۔ بندہ اتوار کی صبح حضرت شیخ کی زیارت کرکے رہائش گاہ پربہ غرض آرام آیا توعصر کے بعد اطلاع ملی کہ حضرت کی حالت نازک ہوتی جارہی ہے۔ فوراً خانقاہ حاضر ہوا خانقاہ میں ایک بہت بڑامجمع ذکرودعا میں مشغول تھا اور سب کے چہروں پرغم کی پرچھائیاں صاف نظر آرہی تھیں، خاموش آنسو بہہ رہے تھے۔ ایک دفعہ توبندہ کو سمجھ میں نہ آیا کہ کیاکریں پھرخانقاہ کے اندرسے بلاوا آیا، بندہ اندرحاضر ہوا، اندر سب دل گرفتہ اور پریشان تھے، حضرت