تذکرہ مجمع البحار |
ہم نوٹ : |
|
کس قدرحلاوت ہے میرے طرزِبیاں میں خود میری زباں اپنی زباں چوس رہی ہے معرفتِ الٰہی کامضمون بیان کرتے کرتے یہ فرماتے اب میرے پاس الفاظ نہیں ہیں جس سے میں اللہ تعالیٰ کے عشق ومحبت کوتعبیرکروں اوراس ارشاد کامصداق ہوجاتے ’’مَنْ عَرَفَ رَبَّہٗ کَلَّ لِسَانُہٗ‘‘جواپنے رب کو پہچان لیتاہے اس کی زبان گنگ ہوجاتی ہے۔ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ عارف اللہ تعالیٰ کے معرفت کے مضمون بیان کرنے سے عاجزہوجاتاہے بلکہ من جملہ ایک ایساوقت آتاہے کہ وہاں الفاظ زبان کا ساتھ چھوڑدیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی حکمت وبصیرت سے نوازاتھا۔ عشقِ الٰہی اورمعرفتِ الٰہی کا پردرداور سنجیدہ مضمون بیان فرماتے فرماتے مزاح کی بات فرمادیتے جس سے روتے چہرے مسکرانے لگتے ورنہ اگر تسلسل سے آپ مضمون بیان فرماتے توشاید کمزورقلوب پھٹ جاتے لیکن جب آپ اس بات کو مجلس میں محسو س فرماتے توفوراًہنسی مذاق کی کوئی بات فرمادیتے جس سے وہ کیفیت کم ہوجاتی۔ خود فرماتے یہ اس لیے مزاح کرتاہوں کہ تمہارے دل کھل جائیں اور میں اس میں عشقِ الٰہی کامال ڈال دوں، اس لیے حضرت کے ایک عاشق دورانِ مجلس زورسے نعرہ لگاتے ؎ تم ہنساوت بھی ہو تم رلاوت بھی ہو میرے مولا سے تم ملاوت بھی ہو اللہ پاک یہ دم سلامت رکھے دورانِ بیان آپ کے آنسوجاری رہتے اوریہی حال سامعین کاہوتاتھا۔جب لوگ بیان سن کرجاتے تواپنے دلوں کو دھلاہوا اورنورسے معمور پاتے۔ ہرمجلس میں لوگوں کو فرش سے عرش تک لے جایاجاتا ؎