ورموز، خوارق وکرامات اور غیبی اطلاعات خوابوں اور پیش گوئیوں کے سننے کا غیرمعمولی شوق پیدا ہوگیا تھا۔ جو شخص یہ جنس جتنی زیادہ پیش کرتا تھا۔ اتنا ہی وہ عوام میں مقبول ہوتا اور ان کی عقیدت واحترام کا مرکز بنتا۔ عیار درویشوں اور چالاک دین فروشوں نے عوام کی اس ذہنیت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ طبیعتیں اور دماغ ناقابل فہم چیز کے قبول کرنے کے لئے ہر نئی چیز کو ماننے کے لئے، ہر دعوت وتحریک کا ساتھ دینے کے لئے اور ہر روایت وافسانے کی تصدیق کے لئے تیار ہوگئی تھیں۔
مسلمانوں پر عام طور پر یاس وناامیدی اور حالات وماحول سے شکست خوردگی کا غلبہ تھا۔ ۱۸۵۷ء کی جدوجہد کے انجام اور مختلف دینی اور عسکری تحریکوں کی ناکامی کو دیکھ کر معتدل اور معمولی ذرائع اور طریقۂ کار سے انقلاب حال اور اصلاح سے لوگ مایوس ہوچلے تھے اور عوام کی بڑی تعداد کسی مرد غیب کے ظہور اور ملہم اور مؤید من اﷲ کی آمد کی منتظر تھی۔ کہیں کہیں یہ خیال بھی ظاہر کیا جاتا تھا کہ تیرھویں صدی کے اختتام پر مسیح موعود کا ظہور ضروری ہے۔ مجلسوں میں زمانہ آخر کے فتنوں اور واقعات کا چرچا تھا۔ شاہ نعمت اﷲ ولی کشمیری کے طرز کی پیش گوئیوں اور الہامات سے سہارا حاصل اور غم غلط کیا جاتا تھا۔ خواب، فالوں اور غیبی اشاروں میں مقناطیس کی کشش تھی اور وہ ٹوٹے ہوئے دلوں کے لئے مومیائی کا کام دیتے تھے۔
پنجاب ذہنی انتشار وبے چینی، ضعیف الاعتقادی اور دینی ناواقفیت کا خاص مرکز تھا۔ ہندوستان کا یہ علاقہ اسی برس تک مسلسل سکھ حکومت کے مصائب برداشت کر چکا تھا۔ جو ایک طرح کی مطلق العنان فوجی حکومت تھی۔ ایک صدی سے کم کے اس عرصہ میں پنجاب کے مسلمانوں کے عقائد میں تزلزل اور دینی حمیت میں خاصا ضعف آچکا تھا۔ صحیح اسلامی تعلیم عرصہ سے مفقود تھی۔ اسلامی زندگی اور معاشرے کی بنیادیں متزلزل ہوچکی تھیں۔ دماغوں اور طبیعتوں میں انتشار وپراگندگی تھی اور مختصر اقبال کے الفاظ میں ؎
خالصہ شمشیر وقرآں را ببرد
اندراں کشور مسلمانی بمرد
اس صورتحال نے پنجاب کو ذہنی بغاوت اور ایک ایسی جدت پسند تحریک ودعوت کے سرسبز وکامیاب ہونے کے لئے موزوں ترین میدان بنادیا تھا۔ جس کی بنیاد تاویلات والہامات پر ہو۔ قوم کے بڑے حصے کا مزاج وہ بن گیا تھا۔ جس کو اقبال نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے ؎
مذہب مین بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کر لے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد