مرزاقادیانی (اخبار بدر قادیان مورخہ ۵؍مارچ ۱۹۰۸ئ، ملفوظات ج۱۰ ص۱۲۷) میں پرزور الفاظ میں اعلان کرتے ہیں: ’’ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نبی اور رسول ہیں۔‘‘
اس کی تصدیق میاں محمود احمد نے اپنی حقیقت النبوۃ میں یوں کی ہے کہ آنحضرتﷺ کی امت میں صرف محدثیت ہی جاری نہیں بلکہ اس سے اوپر نبوت کا سلسلہ بھی جاری ہے… پس یہ بات بالکل روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ کھلا ہے… اور جب کہ نبوت کا دروازہ علاوہ محدثیت کے امت محمدیہ میں کھلا ثابت ہوگیا۔ تو یہ بھی ثابت ہوگیا کہ مسیح موعود (یعنی مرزاقادیانی) بھی نبی اﷲ تھے۔‘‘ (حقیقت النبوۃ ص۲۲۸،۲۲۹)
شوخ… اور حکومت بھی ایسا کہنے سے روکتی ہے کہ دو فرقوں کے درمیان منافرت پھیلتی ہے۔ جس سے کہ ملک میں بدامنی پھیلنے کا اندیشہ ہے۔
میں یہ کہتا ہوں
کیا مسلمانوں کے دل پتھر کے ہیں کہ جب ہمارے آقائے نامدار حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ خاتم النبیینﷺ یابی بی فاطمہ الزہراؓ خاتون جنت یا حضرت امام حسین علیہ السلام نواسہ رسول یا داماد رسول حضرت علی کرم اﷲ وجہہ یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا بی بی مریم علیہا السلام کی شان میں مرزاقادیانی یا ان کے حواری بدکلامی کریں تو ہم اس کو پڑھ کر یا سن کر نہ پگھلیں، یا ملال نہ لائیں۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے۔ کیا اس وقت ہمارے دل نہیں دکھتے۔ کیا ہمیں رنج محسوس نہیں ہوتا۔ کیا ہمارے سینے میں دل نہیں اور اگر ہے تو کیا اس میں رنج وملال یا غم وغصہ کا خانہ خالی ہے۔ آخر ہم بھی تو انسان ہی ہیں اور مرزائیوں کی طرح ہمیں بھی قدرت نے دل ودماغ اور سوچ بچار اور محسوس کا مادہ بخشا ہے۔ کیا ہم اچھے برے نیک وبد دوست ودشمن کی تمیز نہیں کر سکتے۔ کیا عقل وشعور کے مرزائی ہی ٹھیکیدار ہیں۔ جو یہ تصور کئے بیٹھے ہیں کہ ہماری بدکلامی کو دوسرا کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ نہیں نہیں یہ غلط ہے۔ بلکہ ہم یہ سمجھتے ہیں وہ پہلا وقت جو گذر چکا وہ حکومت برطانیہ کی تھی۔ جس کا مرزاقادیانی خود کاشتہ پودہ تھا۔ جس کی پرورش برطانیہ نے نازونعمت کے ساتھ کی اور اس کو ایسی پیوند لگائی کہ جس کے سبب سے اس کا پھل مسلمانوں کے لئے نہایت ہی تکلیف دہ ثابت ہوا۔ مگر اب وہ زمانہ نہیں نہ وہ حکومت، اب یہ حکومت پاکستان ہے۔ جو اسلامی حکومت ہے اور ہم حکومت کے قانون کا احترام کرتے ہوئے حکومت سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ اس کا جلد از جلد مناسب انتظام کرے۔