تھا کہ ’’اشہد ان محمد رسول اﷲ‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ ’’میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد اﷲ کے رسول ہیں۔‘‘
تو جب ہم نے پیدا ہوتے ہی اس بات کا اقرار کر لیا کہ آپؐ اﷲ کے رسول ہیں تو یقینا ہم کو اس اﷲ کے رسول پر نازل شدہ احکام پر بھی ایمان لانا پڑا۔ نہیں نہیں بلکہ حضورﷺ کے ہر ارشاد کو بسروچشم قبول کرنا یہ ہمارا فرض ہوگیا۔ اب ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ حضور پرنورﷺ کے اوپر اﷲتعالیٰ کی طرف سے کیا کیا احکام نازل ہوئے اور اس کا نام کیا ہے تو معلوم ہوکہ اس کا نام قرآن مجید فرقان حمید ہے۔
جب ہم نے قرآن مجید کا مطالعہ کیا تو ۲۲پارہ سورۃ احزاب رکوع۵ آیت۴۰ میں ارشاد خداوندی اس طرح سے پایا۔ ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شیٔ علیما‘‘ {نہیں محمدؐ بالغ مردوں میں سے باپ کسی کا۔ لیکن اﷲ کے رسول ہیں اور ختم کرنے والا ہے تمام نبیوں کا اور اﷲ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔}
اب اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لفظ خاتم النبیین کے معنی کہ آپؐ پر نبوت ختم ہوگئی۔ کس طرح کئے گئے۔ سو جواباً عرض ہے کہ یہ معنی ہم نے نہ تو لغوی لحاظ سے کئے ہیں اور نہ ہی صرف کے زیر تحت اور نہ ہی کسی مجدد یا محدث یا کسی اور بزرگ کی تحریرات سے اخذ کئے ہیں۔ بلکہ یہ وہ معنی ہیں جس کو حضورﷺ نے خود بیان فرمایا۔ جیسا کہ آپؐ فرماتے ہیں۔ حدیث ابوداؤد، مسلم، مشکوٰۃ ’’وانہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون یزعم انہ نبی اﷲ وانا خاتم النبیین لا نبی بعدی‘‘ {اور بے شک میری امت میں سے تیس جھوٹے کذاب ہوں گے۔ ہر ایک دعویٰ رسالت کا کرے گا۔ حالانکہ میں تمام نبیوں کے ختم کرنے والا ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔}
حضرات! یہ وہ حدیث ہے جس کی تصدیق مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی کتب ہائے میں پرزور الفاظ میں کی اور اس کو صحیح تسلیم کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
۱… مرزاقادیانی (ایام الصلح ص۱۴۶، خزائن ج۱۴ ص۳۹۳) پر یوں رقمطراز ہیں: ’’نزول مسیح مجسم عنصری کو آیۃ وخاتم النبیین بھی روکتی ہے اور حدیث بھی روکتی ہے کہ لا نبی بعدی کیونکر جائز ہے کہ نبی کریم خاتم الانبیاء ہوں اور کوئی دوسرا نبی آجائے۔‘‘