مرزاغلام احمد قادیانی کی خدمت میں آپ کے ابا جان میاں بشیرالدین محمود قادیانی خلیفہ ثانی نے بطور نذرانہ پیش کیا ہوا ہے۔ ہم تو صرف یاد دلانے والوں میں سے ہیں۔ ملاحظہ ہو: میاں صاحب اپنی کتاب (حقیقت النبوۃ ص۱۳۳) پر یوں ارشاد فرماتے ہیں کہ: ’’نادان مسلمان کا یہ خیال تھا کہ نبی کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ کوئی نئی شریعت لائے یا پہلے احکام میں سے منسوخ کرے۔ یا بلاواسطہ نبوت پائے۔‘‘
لیجئے مرزاناصر احمد قادیانی! یہی الفاظ آپ کے دادا جان مرزاقادیان نے ۱۷؍اگست ۱۸۹۹ء کے اشتہار میں لکھے تھے۔ جس کو ہم بیان کر چکے ہیں۔ چنانچہ آپ کی تسلی وتشفی کے لئے ہم اس کو دوبارہ لکھ کر آپ کی یاد کو تازہ کرادیتے ہیں۔ آپ کے دادا جان نبی اور رسول کے معنی یوں بیان کرتے ہیں کہ: ’’مگر چونکہ اسلام کی اصلاح میں نبی اور رسول کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ کامل شریعت لاتے ہیں۔ یا بعض احکام شریعت سابقہ کو منسوخ کرتے ہیں یا نبی سابق کی امت نہیں کہلاتے اور براہ راست بغیر استفادہ کسی نبی کے خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے ہوشیار رہنا چاہئے کہ اس جگہ بھی یہ معنی نہ سمجھ لیں۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ ج۵ نمبر۴ ص۱۰۳)
کیوں مرزاناصر قادیانی! دیکھ لیا اپنے دادا جان مرزائے قادیان کی تحریر کو۔ جن معنوں کو آپ کے دادا جان نبی اور رسول کی تعریف میں اسلامی اصلاح کے مطابق بیان فرمارہے ہیں۔ آپ کے ابا جان انہی معنوں کو ایک ’’نادان‘‘ کا خیال فرمارہے ہیں۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ آپ کے دادا جان آپ کے اباجان کی نظروں میں نادان تھے۔ اس لئے ہم نے میاں بشیرالدین محمود کے خیال کی ترجمانی کرتے ہوئے مرزاقادیانی کے حق میں نادان کا لفظ استعمال کیا۔
لیجئے مرزاناصر احمد قادیانی! ہماری تمام تر بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ:
۱…
مرزاغلام احمد قادیانی کی براہین احمدیہ میں ۱۸۸۰ء میں ہی مرزاقادیانی کا دعویٰ نبوت موجود تھا۔
۲… علمائے محمدیہ مرزاقادیانی پر فتویٰ کفر لگانے میں حق بجانب تھے۔
۳…
مرزاقادیانی نے علمائے محمدیہ کے مقابل ہر انتقامی جذبہ کے تحت مسجد خانۂ خدا میں منبر رسول کریمﷺ پر کھڑے ہوکر جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے اپ کو مسلمان ثابت کیا اور علمائے محمدیہ کو متفقہ حدیث کے تحت کافر کہا۔