۴… مجھ پر مدعی نبوت کا الزام ہے۔
۵… علماء محمدیہ مجھ کو کافر کہہ کر خود کافر ہوگئے۔
۶… مکفر علماء کا ساتھ دینے والے مسلمان بھی ان کے ساتھ شامل ہیں۔
۷… ہم کسی کلمہ گو کو کافر نہیں کہتے۔۸… جو لوگ ہم کو کافر کہہ کر خود کافر بن گئے ہیں۔ ہم ان کو مؤمن کہنے کے لئے تیار نہیں۔
۹… جو مسلمان مکفر علماء کا ساتھ دینے والے ہیں۔ ان کے پیچھے نماز جائز نہیں وہ بھی کافر ہیں۔
۱۰… میں مؤمن ہوں مجھے کافر کہہ کر علماء محمدیہ خود کافر بن گئے۔
چنانچہ جب مرزاقادیانی کی تحریر وتقریر کو عام جماعت مرزائیہ نے پڑھا، سنا تو انہوں نے کھلے بندوں عام مسلمانوں کو کافر کہنا شروع کر دیا۔ جب کبھی کسی مسلمان کو مرزائی حضرات سے مذہبی گفتگو کا موقعہ بنا تو اس نے دریافت کیا کہ تم لوگ کل مسلمانوں کو کافر کیوں قرار دیتے ہو۔ تو انہوں نے یہی جواب دیا کہ چونکہ مسلمانوں نے پہلے مرزاغلام احمد قادیانی پر فتویٰ کفر لگایا اور انہوں نے اس فتویٰ کفر کی خانہ خدا دہلی میں تردید کر دی اور خود حلفیہ بیان دے کر حضرت محمد رسول اﷲﷺ کو خاتم النبیین مانا اور اپنے آپ کو حضورﷺ کا امتی ہونا بتلایا۔ لہٰذا شریعت کا مسئلہ ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو بلاوجہ کافر قرار دیتا ہے وہ کفر الٹ کر اس کافر کہنے والے پر ہی وارد ہوتا ہے۔ چونکہ مسلمان علماء نے مرزاغلام احمد قادیانی کو مدعی نبوت کا الزام لگا کر کافر قرار دیا اور مرزاقادیانی نے اس کی تردید کر دی۔ لہٰذا اس مسئلہ کی رو سے یہ علماء کافر ہوئے اور آپ لوگ ان علماء کو مسلمان قرار دیتے ہو۔ لہٰذا کافر کو مسلمان کہنے والا خود کافر ہوجاتا ہے۔ اس لئے آپ تمام مسلمان کافر ہیں اور اگر آج مسلمان اس بات کا اقرار کریں کہ مرزاقادیانی پر فتویٰ کفر لگانے والے علماء حق بجانب نہیں تھے اور مرزاقادیانی اپنے بیانات کی رو سے سچے مسلمان تھے تو آپ لوگوں کو بھی مسلمان تصور کیا جائے گا اور پھر مرزاقادیانی کی طرف سے فتویٰ کفر صرف انہی علماء محمدیہ پر پڑے گا۔ باقی مسلمانوں پر نہیں۔
لیجئے مرزاناصر احمد قادیانی! اس قسم کے جوابات تو عام جماعت مرزائیہ کی طرف سے مسلمانوں کو ملنے شروع ہوگئے۔ مگر جب آپ کے ابا جان میاں بشیرالدین محمود احمد خلیفہ ثانی مرزائے قادیانی کا دور خلافت ۱۴؍مارچ ۱۹۱۴ء کو شروع ہوا تو رہی سہی کسر بھی نکل گئی۔ چنانچہ