۹…
میں خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس نے مجھے عالم رؤیا میں منہ در منہ کھڑے ہوکر کہا کہ مرزاقادیانی نبی ہیں۔
۱۰…
میں مرزاقادیانی کو اس وقت بھی ایسا ہی نبی جانتا تھا جیسا کہ اب مانتا ہوں۔
۱۱…
نادان ہے وہ شخص جس نے کہا کرم ہائے تو مارا کرد گستاخ۔
شوخ… لیجئے جناب میاں ناصر احمد! یہ ہے آپ کے دادا جان اور آپ کے اباجان کی تحریرات کا خلاصہ جو کہ ہم نے آپ کے آگے پیش کیا ہے۔ اب ہم اس کے متعلق آپ پر چند سوالات کر کے جواب طلب کرتے ہیں۔ امید ہے کہ آپ اس کا نہایت سنجیدگی سے جواب دے کر مشکور فرمائیں گے۔ عین نوازش ہوگی۔
سوال نمبر:۱…جب مرزاقادیانی نے اپنی بریت پیش کرنے کے واسطے مسجد خانہ خدا میں خدا کی قسم کھا کر یہ حلفیہ بیان دیا کہ مجھ پر یہ الزام ہے کہ میں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور حضورﷺ کی ختم نبوت کا منکر ہوں۔ بلکہ میں تو حضورﷺکے بعد مدعی نبوت کو کافر، کاذب، بدبخت، مفتری، بے دین، منحرف قران، لعنتی اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور اس کے مقابلہ میں آپ کے ابا جان میاں محمود احمد کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی حقیقی نبی یعنی صاحب شریعت نبی تھے۔ جو ان کو نبی نہیں مانتا وہ کافر ہے تو آپ ان دونوں بیانات میں سے کس کو سچا اور کس کو جھوٹا مانتے ہیں؟ اگر آپ یہ کہیں کہ میرے دادا صاحب مرزائے قادیان سچے تھے تو پھر آپ کے ابا جان میاں محمود احمد جھوٹے ٹھہرے اور اگر آپ یہ کہیں کہ میرے ابا جان سچے تھے تو پھر یقینا مرزاقادیانی کی ذات پر حرف آتا ہے۔ بہرحال دونوں میں سے ایک کو سچا اور دوسرے کو جھوٹا ماننا پڑے گا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ دونوں کو سچا کہیں۔
’’اگر مرزاقادیانی نے دعویٰ نبوت کا نہیں کیا تو یقینا میاں صاحب نے مرزاقادیانی پر بڑا زبردست الزام لگایا۔ جس الزام کے جواب میں مرزاقادیانی نے علمائے محمدیہ کو کافر کہا۔ اگر علمائے محمدیہ مرزاقادیانی کے فتوے کی رو سے کافر ہیں تو کیا وجہ ہے کہ وہی فتویٰ کسی دوسرے پر لاگو نہ ہو۔ لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ میاں صاحب اپنے اباجان مرزائے قادیان پر دعویٰ نبوت کا الزام لگا کر علمائے محمدیہ کے زمرہ میں شامل ہوگئے۔ کیونکہ مرزاقادیانی اس کے متعلق تحریر فرماتے ہیں۔‘‘