میں آمدہ سینکڑوں نشانیاں پیش کر کے امت مسلمہ کے سامنے قادیانی دجل کا پردہ چاک کرتے ہیں تو ان کے پاس سوائے اس کے کوئی بات نہیں رہ جاتی کہ علماء کا کام ہی لڑانا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اب مسئلہ ختم نبوت کے تمام پہلو پوری امت محمدیہ پر سورج سے زیادہ روشن ہوچکے ہیں۔ اس لئے قادیانی دجل وفریب کا استیصال صرف علماء ہی کا کام نہیں رہا۔ بلکہ ہر مسلمان کو ختم نبوت کے بارے میں اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کر کے عشق رسولﷺ کا ثبوت دینا چاہئے۔
شاعر مشرق مفکر اسلام ڈاکٹر علامہ اقبالؒ نے بھی عالم اسلام کو اس خطرہ سے خبردار کیا تھا۔ ابتداء میں قادیانیوں کی سرگرمیوں سے بہت سے مسلمان ناواقف تھے اور وہ اسے ایک اسلامی تحریک سمجھتے تھے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مرزاقادیانی کی تحریریں سامنے آئیں تو معلوم ہوا کہ یہ اسلام کے لئے عیسائیوں سے بھی بڑا خطرہ ہیں۔ کسی پڑھے لکھے انسان کا قادیانی ہونا عقل سے بعید ہے۔ بلاشبہ قادیانی اسلام اور ملک دونوں کے غدار ہیں۔
عالم اسلام کی ہر حکومت کے نام
اس وقت دنیا میں اسرائیلی جارحیت کا شور وغوغا برپا ہے۔ یہودیوں کی ناپاک سازشوں سے لاکھوں فلسطینی ظلم کی چکی میں پس کر شہید کر چکے ہیں۔ مگر اس حقیقت کو فراموش نہ کرنا چاہئے کہ یہودیوں کی طرح قادیانی گروہ بھی اسلام دشمنی میں کسی طرح کم نہیں۔ بلکہ قادیانیوں کے طریقہ واردات اور تبلیغی سرگرمیوں میں ایسا زہر پوشیدہ ہے کہ جس کا ادراک عام آدمی نہیں کر سکتا۔ اب جب کہ قادیانی پورے عالم اسلام کے تمام ممالک میں غیرمسلم اقلیت قرار پاچکے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں غیرمسلم ممالک کے اقلیتی مسلمان اور غیرمسلم قوموں کے ہاں اپنے تئیں دعویٰ مسلمان کی صورت میں لوگوں کو ’’قادیانی احمدی مسلمان‘‘ بنانے تک محدود ہوگئی ہیں۔ اس لئے ضرورت ہے کہ ہر مسلم حکمران، جہاں اپنے اپنے ملک میں ان کی پوشیدہ سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھے وہاں ان سے غیرمسلم ممالک کے اقلیتی مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت اور ان کو اس فتنہ عظیم کی چالبازیوں سے خبردار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
برصغیر کے ایک نامور ادیب اور رہنما آغا شورش کاشمیریؒ نے پاکستان کے قادیانی مرکز ’’ربوہ‘‘ کو عجمی اسرائیل قرار دے کر کئی سال پیشتر ملت اسلامیہ کو اس خطرہ سے آگاہ کر دیا تھا۔ خود مرزاقادیانی نے ایک جگہ لکھا ہے: ’’میں انگریز کا خود کاشتہ پودا ہوں۔‘‘