اتفاق ہے کہ کسی مسئلہ میں تمام صحابہ کرامؓ کی آراء جمع ہو جائیں تو وہ بالکل ایسا ہی قطعی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید کی آیات۔‘‘ (ختم نبوت ص۳۰۱)
صحابہ کرامؓ کا سب سے پہلا اجماع مسئلہ ختم نبوت اس کے منکر کے مرتد اور واجب القتل ہونے پر ہوا ہے۔
مسیلمہ کذاب بھی مرزاقادیانی کی طرح آنحضرتﷺ کی نبوت اور قرآن کا منکر نہ تھا۔ بلکہ بعینہ مرزاقادیانی کی طرح آپ کی نبوت پر ایمان لانے کے ساتھ اپنی نبوت کا بھی مدعی تھا۔ یہاں تک کہ اس کی اذان کے کلمات میں اشہد ان محمد رسول اﷲ پکارا جاتا تھا۔ تاہم کبھی بھی مسیلمہ کذاب نے خود کو بعینہ محمد رسول اﷲ نہیں کہا تھا۔ جب کہ مرزاقادیانی نے کئی جگہ پر محمد رسول اﷲ اپنے لئے استعمال کیا ہے۔ گویا کہ عہد حاضر کا مسیلمہ اعتبار سے کفر، نفاق، ارتداد، فریب کاری اور دجل میں آنحضرتﷺ کے مسیلمہ سے کہیں آگے ہے۔
اجماع صحابہؓ کی نسبت حضرت مفتی محمد شفیعؒ رقم طراز ہیں۔ ’’مسیلمہ کذاب آنحضرتﷺ کی نبوت اور قرآن پر ایمان کے علاوہ نماز، روزہ پر بھی ایمان رکھتا تھا۔ لیکن ختم نبوت کے بدیہی مسئلہ کے انکار اور دعوائے نبوت کی وجہ سے باجماع صحابہؓ کافر سمجھا گیا اور حضرت ابوبکرصدیقؓ نے صحابہ کرامؓ، مہاجرین وانصار اور تابعین کا ایک عظیم الشان لشکر حضرت خالد بن ولید کی قیادت میں مسیلمہ کے خلاف جہاد کے لئے روانہ کیا۔ جمہور صحابہؓ میں سے کسی ایک نے بھی انکار نہ کیا اور کسی نے یہ نہ کہا کہ یہ لوگ اہل قبلہ، کلمہ گو ہیں۔ قرآن پڑھتے ہیں۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ ان کو کیسے کافر سمجھ لیا جائے… الحاصل بلاخوف وبلانکیر یہ آسمان نبوت کے ستارے اور حزب اﷲ کا ایک جم غفیر یمامہ کی طرف بڑھا اور ۱۲۰۰ صحابہ کرامؓ اس میں شہید ہوئے۔ ۴۰ہزار مسیلمہ کے فوجیوں میں ۲۸ہزار بمع مسیلمہ قتل ہوئے… کسی صحابیؓ نے مسیلمہ یا اس کی فوج سے کوئی دلیل طلب نہ کی۔ نہ معجزات دریافت کئے… صحابہ کرامؓ کی اس جہاد کے لئے روانگی اور آمادہ ہو جانے سے صاف معلوم ہوا کہ تمام صحابہ کرامؓ کے نزدیک آنحضرتﷺ کی نبوت کے بعد کسی شخص کا دعویٰ نبوت کرنا خواہ وہ کسی تاویل اور کسی پیرایہ سے ہو باجماع صحابہؓ موجب کفر وارتداد ہے… اس سے بلاتکلف یہ بھی معلوم ہوا کہ مرزاقادیانی اوراس کے پیروکاروں نے دعویٰ نبوت میں غیرتشریعی یا غیرمستقل، یا ظلی بروزی، لغوی وجزوی کی جو آڑ لی ہے۔ وہ حقیقت میں پوری امت مسلمہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ ان کا یہ فریب اور دھوکہ ان کو کفر