اچھا قرآن کی ایک ایک آیت دیکھتے جائیے۔ کہیں آپ کو یہ حکم ملتا ہے کہ ایک زمانہ میں کوئی نبی یا مسیح یا مجدد یا محدث (بالفتح) مبعوث ہوگا اور مسلمانوں کے لئے ضروری ہوگا کہ اسے پہچانیں اور اس پر ایمان لائیں؟ اگر کوئی ایسا حکم نہیں ملتا تو پھر آپ پر کون سی مصیبت آپڑی ہے کہ بیٹھے بٹھائے اس جھگڑے میں پڑیں اور ایک نئے ایمان اور نئی شرائط نجات کے سراغ میں نکلیں؟
قرآن اور مرزائیت
اس بارے میں دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ تیسری کوئی نہیں۔ یا تو نجات کے لئے وہ عقائد کافی ہیں جو قرآن نے صاف صاف بتلا دئیے ہیں۔ یا پھر کافی نہیں ہیں۔
اگر کافی ہیں تو قرآن نے کہیں یہ حکم نہیں دیا ہے کہ کسی نئے ظہور پر ایمان لاؤ۔ اگر کافی نہیں ہیں اور نئے شرائط نجات کی گنجائش باقی ہے تو پھر قرآن ناقص نکلا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ وہ اپنے اعلان ’’الیوم اکملت لکم دینکم‘‘ میں صادق نہیں۔
ہر مسلمان کے سامنے دونوں راہیں کھلی ہیں جو راہ چاہے اختیار کر لے۔ اگر قرآن پر ایمان ہے تو نئی شرط کی گنجائش نہیں۔ اگر نئی شرط نجات مانی جاتی ہے تو قرآن اپنی جگہ باقی نہیں رہا۔ ’’والعاقبۃ للمتقین‘‘ ابوالکلام!
(گذشتہ مکتوب پر سائل نے پھر کچھ خدشات پیش کئے جس پر مولانا نے ذیل کا مکتوب گرامی ارسال فرمایا)
۱۹۔الف بالی گنج سرکلر روڈ کلکتہ
مورخہ ۵؍اپریل۱۹۲۶ء
حبی فی اﷲ السلام علیکم!
خط پہنچا۔ میں پچھلے خط میں جو کچھ لکھ چکا ہوں۔ اس پر پوری طرح غور کیجئے جو نئے سوالات آپ نے لکھے ہیں۔ ان سب کا جواب اس میں ہے۔ کسی ایسے سوال کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔
مجدد کی کوئی ضرورت نہیں
جو لوگ کہتے ہیں مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ ہر صدی کے مجدد پر ایمان لائیں۔ ان سے پوچھئے کہ یہ حکم کس قرآن میں نازل ہوا ہے۔ قرآن سے مقصود وہ قرآن ہے جو محمد رسول اﷲﷺ پر نازل ہوا ہے تو بتلائیے کس پارہ کس سورۃ کس آیت میں یہ بات کہی گئی ہے؟ کہ ہر