یہی وہ کام ہے جو انبیاء کرام اوائل دنیا سے کرتے چلے آرہے تھے۔ اب چونکہ حضور اکرمﷺ پر نبوت ختم ہوگئی۔ اگرچہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا اور نبیوں والاکام باقی ہے۔ اس لئے اﷲ رب العزت نے تبلیغ واصلاح والا فریضہ نبوت ورسالت آپﷺ کی امت کے ذمہ لگادیا ہے۔
’’ولتکن منکم امۃ یدعون الیٰ الخیر ویامرون باالمعروف وینہون عن المنکر (آل عمران:۱۰۴)‘‘{تم میں ضرور کچھ ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں اور برائی سے روکیں۔}
ایک اور مقام پر فرمایا: ’’تعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان (المائدہ:۲)‘‘ {جو کام نیکی اور خداترسی کے ہیں ان سب میں تعاون کریں اور جو کام گناہ اور زیادتی کے ہیں۔ ان میں کسی کا ساتھ نہ دو۔}
(سورہ توبہ:۷۱) میں کہاگیا ہے: ’’والمؤمنون والمؤمنات بعضہکم اولیاء بعض یامرون بالمعروف وینہون عن المنکر‘‘ {مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں سب ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔} اب فرمائیے حضرات جس اہم کام کے لئے انبیاء مبعوث ہوا کرتے تھے اب وہی اہم کام نبیوں سے ہی متعلق نہ رہا۔ تو نبی آکر کرے گا کیا؟ سوائے اس کے وحدت اسلامیہ میں انتشار وافتراق بغض وعناد اور تفریق وتصادم کی ایک نئی لہر پیدا کر دے۔ تاکہ مخالفین اسلام ملت اسلامیہ کا احاطہ کرنے میں دشواری محسوس نہ کریں۔ سو ہوا بھی یہی ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے دعویٰ نبوت کی بدولت ایک ایسا گروہ پیدا کیا جسے اپنے مسلمان ہونے کے اصرار کے باوجود جس کی اپنی کامیابی اہل اسلام کی تباہی میں پنہاں اور پوشیدہ ہے۔ خود مرزاغلام احمد قادیانی نے بارہا یہ اقرار کیا تھا کہ ان کے مفادات اسلام اور مسلمانوں کے دشمن کرسچن عقیدہ کے حامل انگریز سے وابستہ ہیں۔ ان کی سرپرستی کے بغیر وہ نہ مکہ شریف میں محفوظ ہیں اور نہ ہی مدینہ منورہ ان کی پناہ گا ہ ہے۔
ان کے اپنے الفاظ میں: ’’خداتعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے میری اور میری جماعت کی پناہ اس سلطنت (برطانیہ) کو بنادیا ہے۔ یہ امن جو اس سلطنت کے زیرسایہ ہمیں حاصل ہے۔ نہ یہ امن مکہ مکرمہ میں مل سکتا ہے اور نہ ہی مدینہ منورہ اور نہ سلطان روم کے پایہ تخت قسطنطنیہ میں۔‘‘
(تریاق القلوب ص۲۶، خزائن ج۱۷ ص۱۵۶)
عبدالرحیم منہاج (سابق ڈیوڈ منہاس)
ادارہ دعوۃ وارشاد (رجسٹرڈ) چنیوٹ