مرزابشیرالدین محمود نے اپنی تفسیر میں قرآن پاک کی مخالفت اور بائبل کی تائید وتصدیق کر کے طالوت کو جدعون قرار دے کر دریا کے پانی سے جدعون کے ساتھیوں کا امتحان لیا جانا تسلیم کیا۔
آپ لکھتے ہیں: ’’طالوت سے مراد جدعون ہے اور یہ صفاتی نام ہے۔ پرانے عہد نامے کی کتاب ’’قضاۃ‘‘ باب۷ سے معلوم ہوتا ہے کہ جدعون کے ساتھیوں کا نہر کے ذریعہ سے امتحان ہوا تھا۔‘‘ (تفسیر صغیر ص۶۴)
علماء عیسائیت کو اعتراف ہے کہ جدعون کے دو سال بعد بنی اسرائیل کے مطالبہ پر سیموئیل نبی نے ساؤل (طالوت) کو بادشاہ بنایا تھا اور اس بادشاہ کی زیرقیادت داؤد علیہ السلام نے قبطی جولیت (جالوت) کو قتل کیا تھا۔ یہ باور کیا جانا ممکن نہیں کہ طالوت سے مراد جدعون ہے۔ اس لئے کہ قرآن پاک نے محض یہ اشارہ نہیں فرمایا کہ طالوت کے ساتھیوں کا پانی کے ذریعہ سے امتحان لیاگیا تھا۔ بلکہ یہ کہ طالوت کے ساتھیوں کا امتحان لیاگیا تھا اور اس کے ایک ساتھی داؤد نے جالوت کافر کو قتل کیا تھا۔ جب کہ بائبل کی کتاب ’’قضاۃ‘‘ میں صرف بتایا گیا ہے کہ جدعون کے ساتھیوں کا امتحان نہر کے پانی کے ذریعہ لیاگیا تھا۔ گویا کہ جدعون اور طالوت کے درمیان داؤد علیہ السلام کا وجود آکر طالوت کی مراد جالوت نہیں لینے دیتا۔ مرزابشیرالدین نے یہاں شرافت کا دامن چھوڑ کر جھوٹ کا سہارا لے کر عجیب منطق بکھیری ہے۔ جو دروغ گوئی کا عظیم ترشاہکار ہے۔ آپ لکھتے ہیں: ’’اب ایک سوال حل طلب رہ جاتا ہے کہ بائبل کی رو سے داؤد نے جالوت کو قتل کیا تھا۔ لیکن قرآن کریم نے جدعون۱؎ کے واقعہ میں بھی جالوت کا ذکر کیا ہے۔ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ جالوت بھی ایک صفاتی نام ہے۔ عبرانی کے لحاظ سے بھی اور عربی کے لحاظ سے بھی۔ جالوت اس شخص کو کہتے ہیں جو ملک میں فساد کرتا پھرے۔ یعنی ڈاکے مارتا پھرے اور منظم حکومتوں کے خلاف اٹھنے والے اسی طرح کام کیا کرتے ہیں۔ پس معنوں کے لحاظ سے بھی جدعون کے دشمن کو جالوت کہاگیا ہے اور داؤد کے دشمن کو بھی جالوت کہاگیا ہے۔ جدعون کا دشمن بھی آوارہ گرد ڈاکو تھا۔ جو ملک میں فساد پھیلاتا پھرتا تھا اور جالوت کہلاتا تھا۔ اسی طرح داؤد علیہ السلام نے ملک میں امن قائم کرنے کے لئے جس دشمن کا مقابلہ کیا وہ بھی آوارہ گرد فسادی تھا اور جالوت کہلانے کا مستحق تھا۔ پس دونوں کے دشمنوں کو جالوت کہا گیا ہے۔‘‘ (تفسیر صغیر ص۶۵)
۱؎ یہ بھی جھوٹ ہے۔ قرآن پاک میں سرے سے لفظ جدعون ہی موجود نہیں۔