حمایت ہو بھی گئی تو اسے دانستہ حمایت کرنا نہیں کہا جاسکتا۔ اس معنوی تحریف سے مقصد ہی تطبیق کی راہ تھی۔ یہ بات یہاں تک محدود نہیں رہی۔ یہ حضرات یہاں بھی رک جاتے تو بہت ممکن ہے۔ ہم بعض مضامین میں ہم ان سے اتفاق کر لیتے۔ مگر اسے کیا کہئے کہ مرزابشیرالدین محمود نے قرآن مجید کی بعض ایسی آیات کے ترجمہ میں بھی تحریف کر دی ہے کہ ان آیات کا مضمون ان کے والد گرامی کے مفروضہ دعوؤں کی تائید نہیں کر سکا اور نہ ہی تردید۔ مرزابشیرالدین محمود نے قرآن پاک میں معنوی تحریف بلاوجہ نہیں کی۔ دراصل اس اقدام سے انہوں نے اپنے ان موروثی مادی مفادات کا تحفظ کیا ہے جو مادی مفادات ان کے والد بزرگوار کے مفروضہ دعوؤں کی بناء تھے اور آپ جانتے ہیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے کہا کہ: ’’میرا مذہب جس کو میں باربار ظاہر کرتا ہوں یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خداتعالیٰ کی اطاعت کریں۔ دوسری اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو۔ جس نے ظالموں کے ساتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے۔‘‘
(بعنوان گورنمنٹ کی توجہ کے لائق، شہادت القرآن ص۸۴، خزائن ج۶ ص۳۸۰)
یہ بھی معلوم ہے کہ گورنمنٹ برطانیہ انگریزی کا مذہب عیسائیت ہے۔ جن کی مذہبی کتاب کا نام بائبل ہے۔ جو جناب رسول اﷲﷺ کی بعثت سعادت سے پہلے مبعوث ہونے والے انبیاء کے صحیفوں اور ان کے نام منسوب بہت سی کتابوں کا ایک مجموعہ ہے۔ قرآن پاک نے بائبل کے چند مضامین کی تردید اور چند ایک کی تطہیر کی ہے اور بائبل میں انبیاء علیہم السلام سے منسوب بہت سے واقعات کا قرآن پاک نے سرے سے ذکر ہی نہیں کیا اور اس میں بعض انبیاء سے متعلق چند باتیں ایسی بھی بتائی گئی ہیں کہ جو بائبل میں نہیں پائی جاتیں لیکن قرآن مجید میں ان کو اہمیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ سو قرآن پاک کے ان مقامات کی آیات میں معنوی تحریف کر کے مرزابشیرالدین نے قرآن مجید کو بائبل کے سانچے میں ڈھالنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ مثلاً:
’’جناب موسیٰ علیہ السلام کا خدا کے حکم سے اپنی لاٹھی کو سمندر پر مارنا اور سمندر کے پانی کا دو حصوں میں پھٹ کر راستہ دے دینا قوم موسیٰ کا پانی کی دو دیواروں کے بیچ سے گذر جانا اورلشکر فرعون کا غرق ہو جانا۔ قرآن پاک نے اسے معجزہ قرار دیا ہے۔ یہ مضمون قرآن پاک کے متعدد مقامات پر اہمیت کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔ سورۂ شعراء میں ہے: ’’فلما تراء الجمعن قال اصحٰب موسیٰ انا لمدرکون قال کلا ان مععی ربی سہدین فاؤحینا الیٰ