قرآن مجید میں سب پر دلالت کے لئے دو لفظ آئے ہیں۔ مگر اردو میں ایک ایک لفظ کافی ہوتا ہے۔ اس لئے ہم نے ایک کا ترجمہ کر دیا ہے اور دوسرے کو چھوڑ دیا ہے۔
(تفسیر صغیر ص۵۷۹)
مرزابشیرالدین نے قرآن پاک کی اور بہت سی آیات کے حروف کا ترجمہ یا تو حذف کر دیا یا چھوڑ دیا ہے۔ ہم نے بطور نمونہ صرف انہی آیات کو پیش کرنے پر قناعت کی ہے۔
ایک قدم اور آگے
آنجہانی مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب چشمہ معرفت (جس کا حوالہ ہم شروع میں دے چکے ہیں) یہودیوں کی کتاب اﷲ میں تحریف کرنے کا ایک طریق یہ بتلایا ہے۔
’’اپنی رائے سے اپنی تفسیر میں بعض آیات کے معنی کرتے ہیں۔ بعض الفاظ کو مقدم اور بعض مؤخر کر دیتے ہیں۔‘‘
آپ کے صاحبزادے مرزابشیرالدین محمود اس میدان میں یہودیوں سے پیچھے نہیں رہے۔ آپ نے بھی تفسیر میں قرآن پاک کی بعض آیات کے معنی کرتے وقت بعض الفاظ کو آگے اور بعض کو پیچھے کر دیا ہے۔ ان کی تفسیر میں یہ جسارت بھی دیکھ لیجئے۔ ’’وما جعلہ اﷲ الا بشریٰ لکم ولتطمئن قلوبکم بہ وما النصر الا من عند اﷲ العزیز الحکیم (آل عمران:۱۲۷)‘‘ {اور اﷲ نے یہ بات صرف تمہارے لئے خوشخبری کے طور پر اور اس لئے کہ تمہارے دل اس کے ذریعہ سے اطمینان پائیں۔ مقرر کی ہے۔}
ورنہ مدد تو (صرف) اﷲ ہی کی طرف سے (آتی) ہے جو غالب اور حکمت والا ہے۔
’’لیقطع طرفا من الذین کفروا اویکبتہم فینقلبوا خائبین (آل عمران:۱۲۸)‘‘ {(اﷲ) کافروں کے ایک حصہ کو کاٹ دے یا انہیں ذلیل کر دے۔ تاکہ وہ ناکام واپس جائیں۔} یہ آیت ۱۲۸ کے حصہ کا ترجمہ ہے جو مضمون کی وضاحت کے لئے پہلے کر دیا گیا ہے۔ (تفسیر صغیر ص۹۶،۹۷)
مضمون کی وضاحت تو اس کے بغیر بھی سمجھ میں آتی ہے۔ البتہ آیات کے تراجم کے آگے پیچھے کرنے کے بغیر یہودیوں سے مماثلت، مشابہت اور الحاق نہیں ہوتا۔