’’واو‘‘ کو حرف تردید ’’یا‘‘ سے بدل دیا۔ لیکن اس تحریف کا جواز بنانے کے لئے قرآن پاک کے اور بہت سے مقامات کی آیات کے بعض حروف کو حذف کر کے لکھ دیا کہ اس سے آیت کے مطلب میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بطور نمونہ صرف چند آیات ملاحظہ ہوں۔
۱… ’’فبشرہم بعذاب الیم‘‘ تو اسے دردناک عذاب کی خبر دے۔
۲… عربی ’’فا‘‘ ہے جس کے معنی ’’پس‘‘ کے ہیں۔ اردو میں اس کے بغیر فقرہ مکمل ہو جاتا ہے۔ اس لئے ہم نے ’’پس‘‘ کا لفظ اڑا دیا۔ (تفسیر صغیر ص۸۱)۲… ’’فاولئک عسی اﷲ ان یعفوعنہم وکان اﷲ عفواً غفوراً (النسائ:۱۰۰)‘‘ {ان لوگوں کے متعلق خدا کی بخشش قریب ہے۔ کیونکہ اﷲ پہلے ہی بہت معافر کرنے والا ہے۔}
قرآن مجید میں ’’فا‘‘ آتا ہے۔ مگر اردو میں اس کے ترجمہ کے بغیر کام چل جاتا ہے۔ اس لئے ہم نے اردو میں اسے حذف کر دیا ہے۔ (تفسیر صغیر ص۱۲۵)
۳… ’’الذین قال لہم الناس ان الناس قد جمعو لکم فاخشوہم فزادہم ایمانا وقالو حسبنا اﷲ ونعم الوکیل (آل عمران:۱۷۴)‘‘ {یہ وہ لوگ ہیں جنہیں دشمنوں نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے خلاف لشکر جمع کیا ہے۔ اس لئے تم ان سے ڈرو۔ تو اس بات نے ان کے ایمان کو اور بھی بڑھادیا اور انہوں نے کہا ہمارے لئے اﷲکی ذات کافی ہے اور وہ کیا ہی اچھا کارساز ہے۔}
عربی میں ’’الناس‘‘ کا لفظ ہے۔ جس کے معنی آدمیوں کے ہیں۔ مگر مراد وہ آدمی ہیں جو مسلمانوں کے دشمن تھے۔ اس لئے ترجمہ میں دشمن کا لفظ رکھاگیا ہے۔ (تفسیر صغیر ص۱۰۳)
۴… ’’فلما جاء ہم ما عرفوا کفروا بہ فلعنۃ اﷲ علی الکفرین‘‘ {جب ان کے پاس وہ چیز آگئی۔ جس کو انہوں نے پہچان لیا تو اس کا انکار کر دیا۔ پس ایسے کافروں پر اﷲ کی لعنت ہے۔}
یہاں ’’فا‘‘ کا ترجمہ چھوڑا گیا ہے۔ کیونکہ اردو میں ایسے موقعہ پر کوئی لفظ استعمال نہیں ہوتا۔ (تفسیر صغیر ص۲۱)
۵… ’’وان کل لما جمیع لدینا محضرون (یٰسین:۳۳)‘‘ {اور سب لوگ ہمارے حضور جمع کئے جائیں گے۔}