خاتم الانبیاء محمد رسول اﷲﷺ تو یہ فرمائیں کہ جہاد ہمیشہ کے لئے جاری ہے جو دجال کے قتل کرنے تک جاری رہے گا۔ لیکن مرزاقادیانی دجال کہتا ہے کہ میں جہاد کو منسوخ کرتا ہوں۔ یہ سیدنا محمد رسول اﷲﷺ کے دین کی تجدید ہے یا تنسیخ ہے؟ پھر عجیب بات ہے کہ مرزاقادیانی نے اپنے بارے میں یوں بھی کہا کہ محمد رسول اﷲﷺ ہی دوسری صورت میں تشریف لائے ہیں اور یہ پہلی صورت سے زیادہ اکمل ہے اور یوں بھی کہا کہ میں ظلی بروزی نبی ہوں۔ دعویٰ یہ ہے کہ سیدنا محمد رسول اﷲﷺ میری صورت میں دوبارہ آئے ہیں۔ لیکن ان کے دین پر ہاتھ صاف کیا جارہا ہے اور ان کے بتائے ہوئے احکام کو منسوخ کیا جارہا ہے۔ سچ ہے ملحد کا کوئی دین نہیں ہوتا اسے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ میں نے پہلے کیا کہا تھا۔ دروغ گورا حافظ نہ باشد، تو مشہور ہے ہی۔
اب قادیانیوں نے یہ طریقہ نکالا ہے کہ ٹیلیفون کی ڈائری اٹھاتے ہیں۔ اس میں سے ٹیلیفون نمبر لیتے ہیں اور پتہ نوٹ کرتے ہیں۔ پھر اسے خط لکھتے ہیں یا ٹیلیفون پر بات کرتے ہیں اور اسے باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم تو مظلوم ہیں۔ مسلمان ہیں، کلمہ گو ہیں، زبردستی ہم پر کفر لاگو کیا جارہا ہے۔ جب پاکستان اسمبلی نے تمہیں کافر قرار دے دیا جس کے ممبران ساری سیاسی پارٹیوں کے لوگ تھے اور ہر جماعت کے لوگ تھے۔ (علماء تو تھوڑے ہی تھے) تو اب یہ رونا اور گانا کہ ہم مظلوم مسلمان ہیں۔ بے علم لوگوں کو دھوکہ دینے کے سوا کیا ہے۔
قادیانیو! ذرا ہوش کی دوا کرو۔ یہ دنیا یہیں دھری رہ جائے گی۔ اپنے بارے میں دوزخ میں جانا کیوں طے کر لیا ہے اور مسلمانوں کے دلوں سے کیوں ایمان کھرچتے ہو۔ اس جان کو دوزخ سے بچاؤ اور مرزاطاہر اور اس کے خاندان کو مالدار اور اس کی جماعت باقی رکھنے کے لئے اس کی جماعت میں کیوں شریک ہو؟ خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔ ’’من شر الناس منزلۃ عند اﷲ یوم القیامۃ عبد اذہب اخرتہ بدنیاہ (رواہ ابن ماجہ ص۲۸۵، باب اذا التقے المسلمان بسیفہما)‘‘ {یعنی قیامت کے دن بدترین لوگوں میں وہ شخص بھی ہوگا جو اپنی آخرت کو دوسرے کی دنیا کی وجہ سے برباد کرے۔}
قادیانی مبلغین سے واضح طورپر ہمارا کہنا ہے اور بطور خیرخواہی ہے کہ دل کی آنکھیں کھولیں اور اپنی موت کے بعد کی زندگی کی فکر کریں۔ عذاب الیم اور عتاب شدید سے اپنی جان بچائیں۔ قرآن کریم کی آیت ’’فلا تغرنکم الحیوٰۃ الدنیا ولا یغرنکم باﷲ الغرور‘‘ باربار پڑھیں اور اس کا مطلب ذہن میں بٹھائیں۔