مہذب انسان بھی نہیں ہوسکتا۱؎۔ جب کوئی مسلمان قادیانیوں کے سامنے مرزاقادیانی کی بدترین زندگی کے احوال پیش کرتا ہے تو قادیانی کہتے ہیں کہ آپ تو ذاتیات پر اتر آئے۔ حالانکہ یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ جب کسی شخص کو کسی دین کی دعوت دی جائے۔ عقلی طور پر اس کا پہلا کام یہ ہونا ضروری ہے کہ وہ اس دین کے داعی کو جانچے اس کے حالات کو پرکھے۔ اس کی زندگی کا محاسبہ کرے۔ قادیانی لوگ مسلمانوں کو اپنے دین کی دعوت دیتے ہیں۔ جس کا معنی یہ ہے کہ ہمارے دین میں آجاؤ گے تو نجات پا جاؤ گے۔ لہٰذا جس کو دعوت دیں۔ اس شخص کا پورا پورا حق ہے کہ بانی جماعت پر گہری نظر ڈالے۔ یہ ایک بہت بڑی ناسمجھی کی بات ہے کہ اپنا دین وایمان کسی کے حوالہ کر دے اور اس کی زندگی کو نہ جانچے۔ یہ بات ہم نے قادیانیوں کے جواب میں کہی ہے۔ وہ جو یہ کہہ کر پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں کہ آپ ذاتیات پر اتر آئے ہیں۔ اس کا یہ جواب ہے کہ جس کی امت میں داخل ہونے کی دعوت دے رہے ہو۔ اس کی ذات کو کیوں نہ پرکھوں؟ یہان کسی مسلمان کو ختم نبوت کا عقیدہ ہوتے ہوئے کسی مدعی نبوت کو جانچنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۱؎ مرزاقادیانی کی ہرزہ سرائی بابت ذات حق تعالیٰ شانہ اور بابت حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو آپ پہلے ہی معلوم کر چکے ہیں۔ اب حضرات علماء کرام اور عامتہ المسلمین کے بارے میں اس کی گوہر افشانی ملاحظہ فرمائیے۔ ۱۸۵۷ء کے مجاہدین کے بارے میں لکھتا ہے کہ: ’’ان لوگوں نے چوروں قذاقوں اور حرامیوں کی طرح اپنی محسن گورنمنٹ پر حملہ شروع کر دیا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۲۵، خزائن ج۳ ص۴۹۰) اور مولانا ثناء اﷲ امرتسریؒ کے بارے میں لکھتا ہے: ’’کفن فروش۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۲۳، خزائن ج۱۹ ص۱۳۲) ’’ابن غدار۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۴۳، خزائن ج۱۹ ص۱۵۴) دیگر علماء کے بارے میں لکھتا ہے: بعض خبیث طبع مولوی جو یہودیت کا خمیر اپنے اندررکھتے ہیں۔ دنیا میں سب جانوروں سے زیادہ پلید خنزیر ہے۔ مگر خنزیر سے زیادہ پلید وہ لوگ ہیں۔ اے مردار خور مولویو! اور گندی روحو! اے بدذات فرقہ مولویاں۔ (انجام آتھم ص۲۱ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۳۰۵) اے شریر مولویو! اور ان کے چیلو اور غزنی کے ناپاک سکھو۔ (ضیاء الحق ص۴۳، خزائن ج۹ ص۲۹۱) نیز بعض کتوں کی طرح بعض بھیڑیوں کی طرح بعض سوروں کی طرح اور بعض سانپوں کی طرح ڈنگ مارتے۔ (خطبہ الیامیہ ص۱۵۵، خزائن ج۱۶ ص۲۳۸) اور ملاحظہ کیجئے۔ حسن بیان: ’’کنجر ولد الزنا جھوٹ بولتے ہوئے شرماتے ہیں۔ مگر اس آریہ میں اس قدر شرم باقی نہیں رہی۔‘‘ (شحنہ حق ص۶۰، خزائن ج۲ ص۳۸۶) اور عامتہ المسلمین کے بارے میں لکھتا ہے کہ: ’’میری دعوت کو وہ لوگ قبول نہ کریں گے۔ جو زنا کار عورتوں کی اولاد ہیں۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۵۴۷، خزائن ج ص۵۴۷) یہ دشنام طرازی ہے جب کہ اس نے خود ہی لکھا تھا کہ گالیاں دینا اور بدزبانی کرنا طریق شرافت نہیں۔ (اربعین نمبر۴ ص۵، خزائن ج۱۷ ص۴۷۱)