مروی ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام قیامت سے پہلے آسمان سے اتریں گے اور عدل وانصاف قائم کریں گے۔ قادیانی چونکہ ان کی وفات کے قائل ہیں۔ اس لئے آیت کریمہ کے معنی میں تحریف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے رفع درجات مراد ہے۔ جب یہ جاہلانہ تاویل کرتے ہیں تو لفظ الیہ کا ترجمہ کھا جاتے ہیں اور جاہلوں کے سامنے ادھورا ترجمہ پیش کرتے ہیں۔ ’’قبحہم اﷲ تعالیٰ‘‘
قرآنی تصریحات کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے
قرآن کریم میں جگہ جگہ سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ابن مریم فرمایا ہے۔ جب کہ کسی دوسرے نبی کے نام کے ساتھ ان کے والد یا والدہ کا نام ذکر نہیں فرمایا۔ سورہ آل عمران میں فرمایا: ’’ان مثل عیسیٰ عند اﷲ کمثل آدم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون (آل عمران:۵۹)‘‘ {بے شک حالت عجیبہ عیسیٰ کی اﷲتعالیٰ کے نزدیک مشابہ حالت عجیبہ آدم کے ہے کہ ان کو مٹی سے بنایا۔ پھر ان کو حکم دیا کہ ہو جا بس وہ ہو گئے۔}
اس سے صاف واضح ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش عام انسانوں کی طرح نہ تھی۔ سورۃ انبیاء میں فرمایا: ’’والتی احصنت فرجہا فنفخنا فیہا من روحنا وجعلنا ھاوا بنہا آیۃ للعالمین (الانبیائ:۹۱)‘‘ {اور اس بی بی کا تذکرہ کیجئے۔ جنہوں نے اپنے ناموس کو بچایا پھر ہم نے ان میں اپنی روح پھونک دی اور ہم نے ان کو اور ان کے فرزند کو دنیا جہاں والوں کے لئے نشانی بنادی۔}
اور سورۃ مریم کے آخر میں فرمایا: ’’ومریم ابنت عمران التی احصنت فرجہا فنفخنا فیہ من روحنا‘‘ {اور اﷲ تعالیٰ عمران کی بیٹی مریم کا حال بیان فرماتا ہے۔ جنہوں نے اپنی ناموس کو محفوظ رکھا۔ سو ہم نے ان کے چاک گریبان میں اپنی روح پھونک دی۔}
سورۂ مریم کے دوسرے رکوع میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیدائش کا ذکر ہے۔ وہاں ارشاد فرمایا ہے کہ جب فرشتہ نے حضرت مریم علیہا السلام کو یہ بتایا کہ میں تمہارے رب کا قاصد ہوں۔ تاکہ تمہیں ایک پاکیزہ لڑکا ہبہ کروں تو حضرت مریم نے فرمایا کہ: ’’انیّٰ یکون لی غلام ولم یمسنی بشرولم اک بغیا (مریم:۲۰)‘‘ {میرے لڑکا کس طرح ہو جائے گا۔ حالانکہ مجھ کو کسی بشر نے ہاتھ تک نہیں لگایا اور نہ میں بدکار ہوں۔}