موت دے اور اس کو غیب کی خبر دینے والے سچوں میں گردانے۔ اﷲتعالیٰ غالب علی الغیب کسی کو نہیں بتاتا۔ لیکن جس کو پسند کرے مخلوق کی اصلاح کے واسطے رسول بنا کر ابنیاء اور محدثین کے لباس میں بھیجے اور اس عورت کے خاوند کا نام سلطان محمد بن محمد بیگ علم الدین ہے اور اس کے خاوند کے چچا کا نام محمود بیگ ہے اور وہ قصبہ پٹی نزد لاہور کے رہنے والے ہیں۔ یا اﷲ میری قوم اور میرے درمیان سچا فیصلہ کر۔‘‘ (۱۵؍صفر ۱۳۰۶ھ)
مرزاقادیانی نے کہیں پیش گوئی کے وقت یہ نہیں لکھا۔ یہ پیش گوئی شرطیہ ہے اور معلّق ہے۔ بلکہ یہ کہا کہ یہ تقدیر الٰہی کا قطعی اٹل فیصلہ ہو چکا ہے کہ نکاح ہوگیا ہے۔ پھر نہایت بے حیائی اور ڈھٹائی سے حقیقت الوحی میں لکھا ہے کہ وہ نکاح مشروط بشرط تھا۔ جب شرط نہ پائی گئی تو مشروط بھی نہ پایا گیا اور سنئے میں نے مولوی محمد علی امیر جماعت لاہوری مرزائی سے سوال کیا کہ آپ کا اس پیش گوئی کے متعلق کیا خیال ہے۔ محمد علی صاحب نے کہا کہ میں نے مولوی نورالدین سے یہی سوال کیا تھا۔ تو انہوں نے فرمایا ممکن ہے۔ حضرت مرزاصاحب کی نسل سے کسی نرینہ شخص کا نکاح مسماّت کی نسل سے کسی لڑکی سے ہو جائے تو میں نے کہا۔ پھر تو دنیا میں کوئی پیش گوئی جھوٹی نہیں ہوسکتی تو مولوی محمد علی چپ رہے۔ یہ ایک عجیب بات ہے۔ بقول مرزاقادیانی پیش گوئی پوری ہوگئی اور امتی کہتے ہیں ابھی نہیں ہوئی۔ علاوہ اس مرزاقادیانی نے جو تمسخر قرآن کا اڑایا ہے اس کی مثال دنیا میں سوا یہود اور نصرانیوں کے نہیں مل سکتی۔ تحریف اور تاویل سے انہوں نے بھی تورات اور انجیل سے یہی سلوک کیا۔ نور الحق حصہ دوم میں لکھا ہے کہ سورۃ قیامہ میں جو آیت ’’فاذا برق البصر وخسف القمر وجمع الشمس والقمر یقول الانسان یؤمئذاین المفر‘‘ یہ میرے حق میں پیش گوئی ہے اور سورۃ تکویر کی تفسیر اس سے زیادہ خرافات پر مشتمل ہے۔ ایسی طرح ہزارہا کفریات ہیں۔ جن کے بیان کے واسطے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے اور یہاں گنجائش نہیں ہے۔ اس کے دعاوی کاذبہ کے مقابلہ میں اس کے نزدیک ادلیہ محکمہ نصوصات قطعیہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ قاتلان اسلام میں سے اس جیسا بے رحم، ظالم شخص دنیا میں میرے علم میں اﷲ کی قسم کوئی نہیں ہوا۔ اسلام اس کے حق میں زبان حال سے یہ کہہ رہا ہے ؎
قتل ایں خستہ شمشیر تو تقدیر نہ بود
ورنہ از دل بے رحم تو ہیچ تفسیر نہ بود
ختم شد!