قرار ٹھہرایا تھا۔ ہندو سکھ عیسائی اور مسلمان سب کے سامنے ۱۸۸۸ء میں اشتہار دیا تھا اور اس پیش گوئی کے بعد پورے بیس سال تک مرزاقادیانی زندہ رہا۔ مرزاقادیانی کی موت ۱۹۰۸ء کو ہوئی ہے اور کہا کہ یہ تقدیر مبرم قطعی ہے۔ کبھی ہرگز نہیں ٹلے گی۔ چنانچہ اپنی کتاب انجام آتھم میں کہا ہے کہ اﷲ تمام موانع اور عوائق اٹھادے گا اور ’’وکذبوا بایاتی وکانو بہ یستہزؤن فسیکفیکہم اﷲ ویردھا الیک امر من لدنا انا کنا فاعلین‘‘ اور اس پیش گوئی کے متعلق اپنی کتاب ازالہ میں لکھا: ’’فلا تکونن من الممترین‘‘ اور کہا یہ وحی سماوی ہے اور (کرامات الصادقین ص۹۰، خزائن ج۷ ص۱۶۲) پر یہ بعینہ مرزاقادیانی کے قلم کی عبارت عربی کی ہے اور اردو ترجمہ راقم الحروف کا لفظی ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’اﷲتعالیٰ نے میرے دل کی سوزش کو دیکھا اور میرے دشمنوں کی زیادتی اور میرے دوستوں کی قلت کو دیکھا تو مجھے فتوحات کی بشارت دی اور معجزات وکرامات کی خوشخبری دی اور مجھ پر ظاہری تائیدات سے احسان فرمایا اور ان تائیدات سے یہ وعدہ بھی جو میرے رشتہ داروں کے متعلق میرے رب نے فرمایا ہے۔ وہ میرے رشتہ دار کی آیات کی تکذیب اور ان سے استہزاء کرتے اور خدا اور رسول سے کفر کرتے اور کہتے ہیں۔ خدا اور رسول کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ قرآن کی حاجت اور کہتے کہ ہم کسی معجزہ کو نہیں مانتے۔ جب تک اﷲتعالیٰ ہمیں ہمارے نفسوں کے اندر کوئی معجزہ نہ دکھائے اور کہتے۔ ہم نہیں جانتے کہ ایمان قرآن اور رسالت کیا ہے اور ہم کافر ہیں۔ بس میں اپنے رب کے سامنے بڑی ذلت اور عاجزی سے گڑگڑایا اور بڑی تضرع خشوع سے خدا کے دربار میں دست سوال دراز کیا تو میرے رب نے مجھے الہام فرمایا اور خبر دی کہ میں ان کو ان کے نفسوں سے اس طرح معجزہ دکھاؤں گا کہ ان کی لڑکیوں سے ایک لڑکی (اور اس کا نام بھی اﷲ نے لیا) بیوہ کر دیا جائے گا اور اس لڑکی کا والد اور خاوند نکاح کے دن سے تین سال کے اندر مر جائیں گے۔ ان کے مرنے کے بعد ہم اس کی لڑکی تیرے پاس لوٹا دیں گے اور ان دونوں میں سے کوئی نہیں بچے گا۔ ضرور مر جائیں گے۔ ہم اس کو ضرور تیری طرف لوٹائیں گے۔ خدا کی باتوں میں کوئی تغیر وتبدل نہیں ہوسکتا ہے۔ تیرا رب جو چاہے کرتا ہے اور ان دونوں دعوؤں سے ایک پورا ہوگیا ہے کہ لڑکی کا والد معیاد کے اندر مرگیا ہے اور دوسرے وعدہ کا انتظار کرو اور انصاف سے غور کرو اور چراغ کی روشنی سے دیکھو کہ خدائی فعل ہے یا کسی مفتری کا کام ہے۔ کیا خداتعالیٰ کسی ملحد کافر کی دعا مقبولوں کی طرح قبول کرتا ہے۔ بلکہ ایسے شخص کا مرتبہ کسی طرح پوشیدہ رہ سکتا ہے۔ جس کی عزت واکرام کی خاطر اﷲتعالیٰ دو آدمیوں کو