کہ فرمایا: ’’انا اوحینا الیک کما اوحینا الیٰ نوح والنبیین من بعدہ‘‘ اور وحی شیطانی جیسا کہ فرمایا: ’’کذالک جعلنا لکل نبی عدوا شیاطین الانس والجن یوحی بعضہم الیٰ بعض زفرق القول غروراً‘‘ اور فرمایا: ’’وان الشیاطین لیوحون الیٰ اولیاء ہم لیجادلوکم‘‘ ہر دو آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر نبی کے واسطے ہم نے انسانی شیطان اور جنی شیطان دشمن بنادئیے ہیں۔ ملمع سازی اور ابلہ فریبی کی باتیں بعض بعض کی طرف وحی کرتے رہتے ہیں اور شیطان وحی کرتے رہتے ہیں اپنے دوستوں کی طرف تاکہ وہ دین کے متعلق تم سے جھگڑیں۔ مختار ابن عبید، عبداﷲ ابن عمرؓ کا سالا ہے۔ اس کے متعلق ابن عمرؓ کو کہا گیا کہ مختار کا دعویٰ ہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے۔ تو ابن عمرؓ نے فرمایا کہ وہ صحیح اور سچ کہتا ہے کہ شیطان اس کی طرف وحی کرتا ہے اور مختار نے جب حج کیا تو ابن عباسؓ کو کہاگیا کہ مختار کا دعویٰ ہے کہ میں صاحب وحی ہوں۔ انہوں نے فرمایا سچ کہتا ہے۔ اس پر شیطانی وحی آتی ہے۔ ہر دو حضرات نے آیات مذکورہ کا حوالہ دیا کہ وحی شیطانی ہوا کرتی ہے۔ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ مختار جب کوفہ میں تھا۔ ابراہیم بن اشتر کی زیر کردگی اس نے اپنی فوجوں کو بنی امیہ کی افواج سے جنگ کی ترغیب دی اور کہا مجھ پر وحی ہوتی ہے کہ موصل میں تمہاری فوجیں فتح پائیں گی۔ چنانچہ موصل کے تین میل پہلے طرفین کی فوجیں باہم ٹکرائیں اور مختار کی افواج کو فتح ہوئی۔
امام شعبی لکھتے ہیں کہ یہ پیشین گوئی مختار نے میرے روبرو کی تھی۔ جب فتح ہوئی تو مختار کے شیاطین معاونین نے مجھ سے کہا کہ دیکھ شعبی اب موقعہ ہے کہ مختار کی وحی پر ایمان لاؤ۔ میں نے کہا پیشین گوئی موصل کی تھی اور موصل میں تمہیں فتح نہیں ہوئی تو انہوں نے کہا: ’’ومن یضلل اﷲ فلا ھادی لہ‘‘ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ وحی شیطانی ہوا کرتی ہے۔ صحیح مسلم میں ابن عباسؓ سے ہے کہ ایک وقت حضورﷺ رات میں چند صحابہ انصار کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ اچانک ایک ستارا ٹوٹا اور روشنی ہوئی۔ تو صحابہؓ کو فرمایا کہ جہالت کے زمانے مین جب ستارا ٹوٹتا تو تم اس کے متعلق کیا اعتقاد رکھا کرتے تھے۔ تو صحابہ نے عرض کیا کہ ہم خیال کرتے تھے کہ کوئی بڑا آدمی مرے گا یا کوئی بڑی ہستی پیدا ہوگی تو حضورﷺ نے فرمایا کہ کسی کی موت یا پیدائش کے واسطے ایسا نہیں ہوا کرتا۔ بلکہ جب کوئی زمین پر اﷲتعالیٰ حکم نازل کرنا چاہتا ہے تو اہل عرش کو اطلاع دی جاتی ہے تو اہل عرش سے آسمان کے فرشتے پوچھتے ہیں۔ پھر اہل عرش ان کو اطلاع دیتے ہیں۔ پھر درجہ بدرجہ اس حکم کی اطلاع جب آسمان دنیا کے فرشتوں کو پہنچتی ہے تو شیاطین کچھ سن لیتے ہیں کہ