میں یہ خواہش رکھتا تھا کہ وہ ایک نئے دین کا بانی بنے۔ اس کے کچھ متبعین اور مومنین ہوں اور تاریخ میں اس کا ویسا ہی نام اور مقام ہو جیسا جناب رسول اﷲﷺ کا ہے۔ انگریزوں کو اس کام کے لئے موزوں شخص نظر آیا اور گویا انہیں اس کی شخصیت میں ایک ایجنٹ مل گیا۔ جو ان کے اغراض کے لئے مسلمانوں میں کام کرے۔ چنانچہ اس نے بڑی تیزی سے کام شروع کیا۔ پہلے منصب تجدید کا دعویٰ کیا۔ پھر ترقی کرکے امام مہدی بن گیا۔ کچھ دن اور گزرے تو مسیح موعود ہونے کی بشارت ہوگئی اور آخر کار نبوت کا تخت بچھادیا اور انگریز نے جو چاہا تھا وہ پورا ہوگیا۔ اس قادیانی نے اپنا پارٹ بڑی خوبی سے ادا کیا اور انگریز نے بھی اس کی سرپرستی میں کوئی کمی نہیں کی۔ اس کی حفاظت بھی کی اور ہر طرح کی سہولتیں اس کے کام میں پہنچائیں۔ قادیانی نے بھی گورنمنٹ کے ان احسانات کو فراموش نہیں کیا اور ہمیشہ اس بات کا معترف رہا کہ اس کا نمود برطانیہ عظمیٰ کا رہین منت ہے۔
چنانچہ اپنی ایک تحریر (عرض بحضورگورنرپنجاب بتاریخ ۱۴؍فروری۱۹۹۸ئ… تفصیل کے لئے دیکھئے میرقاسم علی کی کتاب ’’تبلیغ رسالت‘‘ ج۷) میں خود کو حکومت برطانیہ کا خود کاشتہ پودا قرار دیتا ہے اور ایک جگہ اپنی وفاداریوں اور خدمت گزاریوں کو گناتے ہوئے لکھتا ہے کہ: ’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریز کی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھا کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب اور مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچادیا ہے۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۵،خزائن ج۱۵ص۱۵۵) ایک دوسری جگہ لکھتا ہے: ’’میں ابتدائی عمر سے اس وقت تک جو قریباً ساٹھ برس کی عمر تک پہنچا ہوں اپنی زبان اور قلم سے اس اہم کام میں مشغول ہوں۔ تاکہ مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچی محبت اور خیرخواہی اور ہمدردی کی طرف پھیر دوں اور ان کے بعض کم فہموں کے دلوں سے غلط خیال جہاد وغیرہ کے دور کردوں جو ان کو دلی صفائی اور مخلصانہ تعلقات سے روکتے ہیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ص۱۱)
اور اسی کتاب میں آگے چل کر لکھتا ہے کہ: ’’اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھتے جائیں گے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ص۱۹)