ضروری گذارش
حق پسند حضرات نے روئیداد ملاحظہ کر کے مرزاقادیانی کے دعوؤں کی حالت اجمالی طور پر معلوم کی ہوگی۔ میں نہایت سچائی اور مسلمانوں کی خیرخواہی سے کہتا ہوں کہ مرزاقادیانی کے تمام دعوؤں کی یہی حالت ہے۔ جس بات کا دعویٰ ان کے خیال میں آگیا اسے بڑے زور کرتے ہیں اور اس کے ساتھ لاجوابی کا دعویٰ بھی نہایت ہی زور وشور سے کر بیٹھتے ہیں کہ ضعیف القلب حضرات تو خواہ مخواہ کم وبیش خوف زدہ ہو جاتے ہیں اور قوی القلب اور متین بزرگ بیہودہ سمجھ کر خاموش رہتے ہیں۔ مرزاقادیانی کے دعوے جو بڑے زور وشور سے ہوتے ہیں۔ اس کی کئی وجہ معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ جو بات نہایت زور کے دعوے کے ساتھ باربار کی جائے گو کیسی ہی ہو۔ مگر بہت دلوں میں کم وبیش اس کا اثر ہوتا ہے۔ تحقیقات جدیدہ نے اس کو ثابت کر دیا ہے۔ دوسری یہ کہ انہیں علمائے اہل اسلام اور حضرات صوفیائے کرام کے مزاج کی حالت معلوم ہے کہ ایسے شخص سے وہ خطاب کرنا پسند نہیں کرتے۔ جیسے مرزاقادیانی سخت گو اور نہایت بے باک ہیں۔ جنہیں خدا اور رسولﷺ اور کتاب اﷲ پر صریح جھوٹ باندھنے میں تأمل نہیں ہوتا۔ تیسرے یہ خیال کرتے ہیں کہ ہماری دھمکی اور زور کے دعوے سے اگر دب گئے یا اپنی متانت کی وجہ سے توجہ نہ کی تو عوام پر پورا اثر ہوگیا اور ہماری صداقت ان کے ذہن نشین ہوگی اور اگر کوئی ضرورت خیال کر کے سامنے آگیا جیسے اتفاقاً پیر صاحبؒ سامنے آگئے تو ٹال دینا اور کوئی عذر حیلہ کر کے بات بنا دینا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ کیونکہ سلطان القلم کہلاتے ہیں اس کا ثبوت اس روئیداد سے کامل طور سے ہوتا ہے اور مولانا مولوی نذیر حسین صاحب محدث دہلویؒ سے مناظرہ کا اعلان دیا اور اس کا انجام بھی یہی ہوا۔ مولوی محمد بشیر صاحبؒ (شہسوانی) سے مناظرہ شروع کر کے اس سے فرار کیا۔ اس کے بعد بارہا لکھ کر مشتہر کر دیا۔ مولوی ثناء اﷲ امرتسریؒ ان کی پیشین گوئی کے پڑتال کے لئے قادیان گئے اور باوجود نہایت دعوے کے سامنے نہ آئے۔ غرض کہ حق طلب حضرات کے لئے یہ نظیریں ان کے جھوٹے ہونے کی نہایت واضح ہیں۔ اس کے بعد اﷲتعالیٰ نے ایک اہل کمال صاحب دل کو اظہار حق کے لئے متعین کر دیا۔ انہوں نے متعدد رسالے لکھے اور لکھ رہے ہیں۔ سنا گیا ہے کہ خلیفۃ المسیح ان کا پہلا رسالہ دیکھ کر ان پر یہ الہام اترا کہ تم کچھ مت لکھو۔ اپنا کام کئے جاؤ۔ یہ الہام خلیفہ صاحب کو ہونا ضرور تھا۔ کیونکہ ایسے اہل کمال بزرگ کو اس طرف توجہ ہوئی ہے کہ ان کے فضل وکمال اور ان کی زور تحریر سے خلیفہ صاحب خوب واقف ہیں۔ اس لئے جواب سے ان کی ہمت قاصر ہوگئی اور سکوت کا عمدہ عذر کیا اور الہام تو ہر ایک کو ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ ’’فالھما فجورھا وتقوٰھا‘‘