بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
نحمد اﷲ العلی العظیم ونصلی علیٰ رسولہ الکریم!
برادران اسلام! یہ عاجز آپ کو ایک مہتم بالشان دینی امر کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے اور امید رکھتا ہے کہ آپ اخوت اسلامی کے خیال سے اور دعوت دینی کی نظر سے پوری توجہ فرمائیں گے۔ خیر خواہوں کی باتوں کی طرف توجہ نہ کرنا اور ایک طرفہ ڈگری کر دینا عقل وانصاف سے نہایت بعید ہے۔ کچھ عرصہ سے مرزاغلام احمد قادیانی کے دعویٰ کا ذکر ان کے رسالوں میں بہت کچھ دیکھا گیا اور ان کے اخباروں اور اشتہاروں میں بہت زور دیکھا جاتا ہے۔ مگر اﷲتعالیٰ نے جنہیں کچھ علم کے ساتھ فہم سلیم اور انصاف پسندی عنایت کی ہے۔ وہ بالیقین انہیں کی کتابیں اور رسائل دیکھ کر ان کی واقعی حالت سے واقف ہو سکتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ ایسے حضرات انہیں کے مختلف رسائل دیکھ کر یقینی طور سے انہیں کاذب کہہ دیں گے۔ کیونکہ باوجود دعویٰ نبوت کے ان کی تحریروں میں نہایت تناقص اور اختلاف ہے اور سچے نبی کی ایسی تحریریں نہیں ہوسکتیں۔ ارشاد خداوندی ہے: ’’لوکان من عند غیر اﷲ لو جدوا فیہ اختلافاً کثیراً‘‘ اور صرف اختلاف ہی نہیں ہے۔ بلکہ ان میں جھوٹی باتوں کا انبار ہے۔ ان کی تحریر کی روش اور مخالفوں سے ان کی سختیاں اہل دانش واقف کار کو صاف بتارہی ہیں کہ وہ سچے نہ تھے۔ اہل اﷲ اور صادقوں کا طرز ان کی تحریر میں ہرگز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جو دلیلیں انہوں نے اپنی صداقت میں پیش کی ہیں۔ اگر ان کا بیان سچ مان لیا جائے تب بھی وہ صادق نہیں ٹھہر سکتے۔ ان کی صداقت کی دلیلوں میں امور ذیل پیش کئے جاتے ہیں۔ مثلاً:
۱…
دعاؤں کا قبول کیا جانا۔
۲…
حقائق ودقائق قرآن مجید کا ان پر منکشف ہونا۔
۳…پیشین گوئیوں کا پورا ہونا۔
یہ دعوے اگر صحیح مان لئے جائیں تو بھی ان کی مسیحیت ہرگز ثابت نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ دعا کا قبول ہونا نبی یا مہدی موعود سے مخصوص نہیں ہے۔ بعض اولیاء اﷲ اس صفت کے ساتھ مخصوص ہوئے ہیں۔ حضرت معاذؓ کے حال میں لکھا ہے کہ جس بات کے لئے آپ قسم کھالیتے تھے۔ وہ ضرور پوری ہوتی تھی۔ پھر یہ کہ دنیا میں قبولیت دعا تو مسلمان سے بھی مخصوص نہیں ہے۔ کافر کی بھی