حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
بھاگ گئے۔ ‘‘ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے گوش اقدس تک جب یہ خبر پہنچی تو آپ ﷺ کو سخت رنج ہوا۔ آپ ﷺ پر حضرت ابوذرؓ کی وفا شعار فطرت آئینہ کی طرح واضح تھی۔ آپ ﷺ نے مدتوں کے تجربے کے بعد یقین کر لیا تھا کہ ابوذرؓ کے سینہ میں جو دل ہے وہ کبھی ابوذرؓ کے پاؤں کو پیچھے لوٹا نہیں سکتا۔ لیکن آپ ﷺ مجبور تھے۔ اس وقت صحابہ کی ان چہ می گوئیوں کا کیا جواب دیتے صرف اس قدر فرما کر۔ ’’ چھوڑ دو اس کو چھوڑ دو، اگر اس کی ذات میں کوئی بہتری ہوگی تو خداوند تعالیٰ خود تم لوگوں سے ملا دیں گے۔‘‘ اس قدر فرما کر آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔ قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ گو زبان مبارک چپ تھی۔ لیکن دل میں حضور ﷺ کے یہ تمنا تموج پذیر تھی کہ کاش ابوذرؓ ملنے میں جلدی کرتا۔ اور لوگوں کو جو اس کی جانب سے بدگمانی ہوگئی ہے وہ جلد دور ہو جاتی۔ آخر یہی ہوا کہ یکایک آپؓ کو ہوش آیا۔ اب جو دیکھتے ہیں تو قافلہ غائب ہے۔ نہ صحابہ کرام ہیں نہ وہ ہیں جن کو دیکھ لینے کے بعد ابوذرؓ پھر کسی چیز کو دیکھنا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ اپنے بچھڑنے کا انھیں ادھر احساس ہوا۔ اور دل تھا کہ عجلت اور تیزی کی آرزؤں میں ڈوب گیا۔ اونٹ کچھ تو قدرتًا سست تھا۔ پھر نکیل کو ڈھیلی پا کر بہت زیادہ دھیما ہوگیا تھا آپ نے ایڑ لگائی، کوڑے لگائے۔ لیکن لوگ میلوں آگے نکل چکے تھے۔ ان کا چھو لینا دشوار ہوگیا اور یہاں بے تابی حد سے زیادہ گزر رہی تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کیجئے۔ آخر تھک کر اپنے اونٹ سے