حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
اتر پڑے جو کچھ سامان سر پر لاد سکے لاد لیا۔ اونٹ کو مع بالان وغیرہ کے وہیں چھوڑ کر دوڑتے ہوئے تلاش محبوب میں قدم بڑھانا شروع کیا۔ انجام کار ہانپتے کانپتے قافلہ کے قریب آلگے کسی کی نظر پڑی کہ کوئی شخص پیادہ پا بعجلت تمام آرہا ہے۔ لوگوں کو خیال تھا حضرت ابوذر تو اونٹ پر سوار ہیں، اس لیے یہ کوئی اور شخص ہے فورا غل ہوا کہ کوئی آرہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی لوگوں نے اطلاع دی کہ جنگل میں کوئی اکیلا تن تنہا پیادہ پا آرہا ہے۔ غرض کہ ہر شخص "کوئی آرہا ہے، کوئی آرہا ہے" کی آواز بلند کر رہا ہے. لیکن حضور نے جب دیکھا تو ارماں بھرے دل سے جو آواز نکلی آہ! کہ وہ یہ تھی كن أباذر كن أباذر___ابوذر ہی ہو ابوذر ہی ہو ان لفظوں میں کیا مسیحائی ہے تم کو کیا معلوم، قتیلان ناز سے پوچھو! کہ اس کلمہ ایجاد میں کتنے مٹے ہوؤں کی جانیں پوشیدہ ہیں اللہ اللہ سرباختہ ابوذر کی اس موت کو دیکھ کر رحم آتا ہے. اور یوں زندہ کیا جاتا ہے. ابوذر اپنی ہستی کو کھو بیٹھے تھے. اور جو اس طرح اپنی متاع کھوتا ہے وہ یوں ہی پاتا ہے اور لباس و جود دوبارہ اسے اسی طرح پہنایا جاتا ہے. سینہ کا داغ ہے وہ نالہ جو لبتک نہ گیا خاک کا رزق ہے وہ قطرہ جو دریا نہ ہوا نہیں ہو سکتا تھا کہ ادھر سے یہ ایجادانہ الفاظ نکلیں اور دوسری طرف سے گم ہونے والا ابوذر پھر پیدا نہ ہو. آخر یہی ہوا. چند منٹ کے بعد صحابہ میں غل ہوا کہ "ابوذرہی ہی ہے، ابو ذر ہی ہیں". حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا دل بھر آیا یہ سنتے ہی آپ حضرت ابوذر کی