حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
صلی اللہ علیہ وسلم اپنے طلعت قدوسی پر ایک چادر ڈالے ہوئے آرام فرما رہے تھے، حضرت علیؓ نے اشارہ کیا آپؓ بیتابانہ دوڑ پڑے اور سلام عرض کیا حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی فرمایا و علیکم السلام حضرت ابوذرؓ رات کے واقعہ سے متاثر ہوچکے تھے۔ جانتے تھے کہ کہیں معاملہ پھر نہ ٹل جائے، قبل اس کے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اور کچھ فرمائیں۔ آپ نے فرمایا ’’ کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں وہ مجھے سنائیے آپ نے فرمایا میں نہیں کہتا۔ ’’ خدا فرماتا ہے۔ حضرت ابوذرؓ نے فرمایا تو وہی سنائیے حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن مجید کی ایک سورۃ ( نام پر اطلاع نہ ہو سکی) تلاوت فرمائی۔ ادھر سورۃختم ہوئی اور ادھر حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمدًا عبدہ و رسولہ ۱؎ کے ساتھ ایک چیخ ماری اور جو کچھ ہونا تھا ہوگیا۔ نہ دلیل تھی اور نہ حجت صرف حضرت ابوذرؓ کی مشکوۃ سینہ میں ایک قندیل تھی جس کے اند ایک سماوی روغن بھرا ہوا تھا۔ قریب تھا کہ بھبھک اٹھے، آخر بھڑکا کہ پھر کبھی نہ بجھا۔ اور اس طرح مسلمانوں کے اندر جن کی تعداد کرہ زمین پر کل چار تھی ایک کا اور اضافہ ۲؎ ہوگیا۔ تھوڑی دیر میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے اسلام کی خوشخبری دی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو غور کیا تو پہچان کر فرمایا۔ الیس ضیفی بالامس کیا وہی شخص نہیں ہے جو کل میرے مہمان تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱؎ طبقات ۲؎ طبقات