حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
حضرت ابوذرؓ کو کیا سوجھی کہ جس کونے میں پڑے ہوئے تھے وہیں سے آواز دی انکحا احدھما الاخر ایک کا دوسرے سے نکاح کردو مقصد یہ تھا کہ ارے ان بتوں سے کیا مانگتی ہو۔ بزعم تم لوگوں کے وہ خود فراق میں تڑپ رہے ہیں۔ ہاں اگر دونوں کا بیاہ کر دو گی تو ممکن ہے کہ تمھاری سنیں۔ ------------------------------ ( بقیہ سلسلہ گزشتہ ) یمن ان کا وطن تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اساف نائلہ کے حسن پر فریفتہ ہو گیا نائلہ نے بھی جب اس کے حسن و جمال کو دیکھا تو دل دی بیٹھی۔ صورت حال دونوں کو یمن میں ملنے سے مانع تھی۔ آخر مکہ معظمہ حج کے حیلہ سے آئے، جاہل عربوں کا عقیدہ تھا کہ ایک دن دونوں کو حرم میں تنہائی مل گئی اور وہیں امر شنیع کے مرتکب ہوئے اس پر خدا کا غضب نازل ہوا دونوں پتھر کے ہوگئے۔ عبرت کے لئے لوگوں نے ایک کو صفا پہاڑ پر اور دوسرے کو مروہ پہاڑ پر رکھ دیا تھا۔ عمر بن لحی خزاعی نے جب عرب میں بت پرستی پھیلائی تو خاص کر ان دونوں کو اس نے بہت اہمیت دی قصی نے اپنے زمانہ میں ان کو پہاڑوں سے اتار کر ایک کو کعبہ سے لگا دیا اور دوسرے کو چاہ زمزم پر نصب کر دیا تھا۔ زمانے سے عرب جاہل ان کی پرستش کرتے تھے آخر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن ان سے خدا کے گھر کو پاک کیا۔ ممکن ہے کہ عربوں کے اس بیہودہ فسانہ پر تعجب ہو لیکن واقعہ یہ ہے کہ بت پرستوں کے ہاں یہ باتیں عام ہیں ہندوؤں میں بھی اس قسم کے قصے اکثر پائے جاتے ہیں مثلًا رامائن میں اہلیا اور اندر کا واقعہ قریب قریب اسی کے ہے، کہا جاتا ہے کہ گوتم رشی بڑا عالم تھا اس سے اندر دیوتا وید پڑھنے آتا تھا اس کی بیوی اہلیا کو دیکھ کر عاشق ہوگیا۔ گوتم نہانے گیا تھا کہ اندر نے اس سے بدفعلی کی گوتم نے آکر دیکھا تو بددعا دی۔ اندر کے جسم میں ہزار بھک ( علامت تانیث ) پیدا ہوگئی اور اہلیا پتھر کی ہوگئی