حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
مگر جب آیا تو آشفتہ سری بحال تھی۔ بلکہ یوں سمجھنا چاہئے کہ اور زیادہ تیز ہوگئی تھی۔ خود فرماتے تھے اور نہایت شگفتگی سے فرماتے ہیں۔ فارتفعت حین ارتفعت کانی نصب احمر فاتیت زمزم فشربت مائھا و غسلت عنی الدماء (طبقات وغیرہ) ترجمہ:۔ پھر میں اتھا جس وقت اٹھا گویا میں ایک سرخ بت تھا (یعنی خون میں نہائے ہوئے تھے) اسی وقت زمزم پر آیا، پانی پیا اور خون دھویا۔ بدن سے خون نکل رہا ہے۔ کپڑے لہو میں لت پت ہوگئے ہیں لیکن نہ کسی کی شکایت ہے اور نہ گلہ۔ نہایت اطمینان سے زمزم پر آئے۔ پانی پیا۔ خون دھویا۔ ارادہ کی مظبوطی میں کوئی تغیر نہیں کہ وہاں خیال ہی اور تھا۔ حافظ چو رہ بکنگرۂ کاخ وصل نیست با خاک آستانۂ ایں در بسر بریم رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ وضعداری کا ایک وہ زمانہ تھا کہ ماموں کی معمولی سی شکایت پر آپ نے ہمیشہ کے لئے ان سے قطع تعلق کر لیا اور آج محبت کی کرشمہ سازیوں کا نظارہ اسی آسمان کے نیچے کیجئے کہ پتھر مارے جاتے ہیں، ہڈیاں پڑتی ہیں، لہو بہتا ہے، دھکے دیے جاتے ہیں۔ لیکن پاؤں نہیں ہلتا۔ حرم کے دروازے سے ''پندارم توی'' کی امید میں نگاہِ انتظار نہیں ہٹتی، احساس تک نہیں، کیا ہوا اور کیا گذری۔ اولئک یجزون الغرفۃ بما صبروا و یلقون فیھا تحیۃ و سلاما ترجمہ:۔ یہی لوگ ہیں جن کو ''غرفہ'' کے ساتھ (جنت میں) بدلہ دیا جائے گا اور اس میں پائیں گے سلام و تحیہ۔