حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
اللّٰه مخلصین له الدین فلما نجاھم الی البر اذا ھم یشرکون۔ خدا کو سچے دل سے پکارتے ہیں پھر جب خدا انھیں خشکی کی طرف نکال دیتا ہے تو وہی شرک کرنے والے ہو جاتے ہیں۔ سے بھی اسی خیال کی تائید ہوتی ہے۔ اور نہ صرف اسی قدر بلکہ بعض قبیلوں کے دلوں میں تو ان بتوں کی چنداں وقعت بھی نہ تھی کھجوروں کے بت کو قحط کے ایام میں عربوں کا چٹ کر جانا ان کی دلی تکریم کی پوری تشریح کرتا ہے۔ بہر کیف وہ خداوند تعالیٰ کو ضرور مانتے تھے اور سب سے بڑا معبود مانتے تھے۔ اپنے اہم معاملات میں اس کی طرف رجوع کیا کرتے تھے علی الخصوص جب کہ کوئی اُخروی و دینی ضرورت ہو۔ اور اسی بناء پر میرا قیاس ہے کہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہٗ کو چونکہ اپنی عاقبت ۱ کی بد انجامی کا خوف روز بروز بہت زیادہ شدت پزیر ہوا۔ مضطرب ہو کر اُنھوں نے بجائے اساؔف و نائلؔہ لاؔت و عزؔی کے یہی رائے قائم کی کہ میرا جرم عظیم ہے میں نے سیکڑوں بیکسوں مسافروں بچوں اور عورتوں کو بے دردی کے ساتھ ستایا ہے۔ اس لئے اب مجھے اپنی عمر کا باقی حصہ اکیلے خدا کی عبادت و پرستش میں گزار دینا چاہئے۔ ممکن ہے کہ یہی عبادت گزشتہ معصیتوں کی کفارہ ہو جائے، اس خیال کا رنگ آپ پر اس قدر گہرا ہوکر چڑھا کہ بغیر کسی تعلیم و ارشاد کے خود اپنے جی سے عبادت کی کچھ صورت مقرر کر لی کہ صرف دل کی پشیمانی ------------------------------ ۱ آخر بت کا خیال اکثر عربوں میں موجود تھا البتہ ایک روشن خیال طبقہ تھا جو ان چیزوں کو اساطیر الاولین ( پہلوں کو داستانیں) اور ' افک قدیم' ( پرانا جھوٹ) کہہ کر لغو قرار دینے کی کوشش کرتا تھا ۔