حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
چونکہ یہ بالکل جدید واقعہ تھا، اس لئے صحابہ میں برہمی پھیل رہی تھی۔ عبد اللہ بن مسعود، عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہم ایک طرف آپس میں مشورے کر رہے تھے۔ بار بار عبد اللہ بن مسعود کی زبان پر یہ فقرہ آتا تھا۔ فلیت حظی من اربع رکعاتٍ رکعتان متقبلتان ( بخاری) کاش چار رکعتوں کے ثواب سے مجھے دو ہی رکعتیں جو خدا کے نزدیک مقبول ہیں وہی ملتیں۔ لیکن خلیفہ وقت کی اطاعت کو ان کی دقیق روحانی بصیرتیں اس قسم کی مسائل پر ترجیح دے چکی تھیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبد الرحمٰن بن عوف کو جو آخری جواب دیا تھا وہ یہ تھا۔ الخلاف شرٌ قد بلغنی انہ صلّی اربعًا فصلیت اصحابی اربعًا ۱؎ خلاف بری بات ہے مجھے خبر ملی کہ حضرت عثمانؓ نے چار رکعتیں پڑھی ہیں اس لئے میں نے بھی چار پڑھیں۔ ہمارے مجذوب سرمست درویش کو بھی جب یہ خبر ملی تو ابتدا میں آپ پر ------------------------------ (حاشیہ گذشتہ صفحہ ) حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب چار رکعت پڑھی تو عبد الرحمٰن بن عوف نے آ کر پوچھا ہے کہ تم نے ایسا کیوں کیاِ؟ اس کے جواب میں آپؓ نے فرمایا، کہ میں نے بعض لوگوں سے سنا کہ یمن کے کچھ لوگ اور بعض گنوار بدوؤں نے اپنے ملکوں میں جا کر مشہور کر دیا ہے، کہ نماز مقیم کے لئے بھی دو دو رکعتیں ہی ہیں، یعنی دو ظہر کی اور دو عصر کی کیوں کہ امیر المؤمنین یوں ہی پڑھتے ہیں۔ یہ ایک سخت غلط فہمی ہے۔ اس لئے اقامت کی نیت کر کے چار پڑھ لی اور وجہ اس اقامت کی یہ ہے کہ میں نے منیٰ میں نکاح کرلیا ہے۔ اور یہاں سے طائف قریب ہے جہاں میری جائداد بھی ہے۔ اس کی نگرانی کے لئے بھی یہاں اقامت کر لیتا ہوں۔ حضرت عبد الرحمٰن نے اس پر پھر معارضہ کیا جس کا جواب حضرت عثمانؓ نے یہ دیا کہ ’’ یہ میری رائے ہے ‘‘ حاصل یہ ہے کہ اقامت کی نیت سے جب آدمی مقیم ہو جاتا ہے تو حضرت عثمان پر اعتراض ہی کیا باقی رہتا ہے ------------------------------ ۱؎ طبری۷۷ ج ۳