حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
’’ شاکر ‘‘ ہر حال میں شکر کا مقام حاصل کر لیتا ہے، اور صبر تو اپنے تمام ثمرات کے ساتھ وہ اپنی جگہ پر قائم ہی ہے۔ اولاد کے لئے لوگوں نے آپ کو دوسری بیوی کرنے کا بھی مشورہ دیا، لیکن راضی نہ ہوئے۔ آخر عمر میں آپ کا خاندان ان ہی دو عورتوں ( بیوی اور بیٹی ) اور خود آپ کی ذات سے عبارت تھا۔ الغرض ربذہ کی وادی میں ایک سرمست خمخانہ حجاز کا مخمور الست، اپنی زندگی انہیں سامانوں پر گزار رہا تھا۔ اور خوش تھا کہ دنیا کے تمام جھگڑوں سے اسے نجات مل گئی تھی۔ شہروں کے شورو غوغا سے الگ ہو کر روحانی مسرتوں کی لذت اندوزیوں میں باطمینان مصروف تھا۔ سطحی نگاہوں میں گو موجودہ حالت مسکنت و افلاس کی تھی لیکن ژرف نظروں سے پوچھو، ان سے دریافت کرو جو کسی کی نرگس مست کی غلامی لکھوا چکے ہوں، اور کسی کے بادۂ لعل سے دل و جاں کو خراب کر چکے ہوں، کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ غلام نرگس مست تو پادشاہانند خراب بادۂ لعل تو ہوشیار انند بہرحال ربذہ میں آپ کے پاس جو کچھ تھا اوروں کے نزدیک وہ کافی ہو یا نہ ہو لیکن ان کے غنی دل نے ہمیشہ اس کو کافی خیال کیا۔ شام کے گورنر حبیب بن مسلمہ نے ایک دفعہ آپ کی خدمت میں تین سو اشرفیاں بھیجیں اور لکھ بھیجا۔ استعن بھا علی حاجتک اپنی ضرورتوں میں ان سے مدد لیجئے۔ لیکن حضرت ابوذرؓ نے قاصد کو جواب میں کیا کہا۔ ’’ ان اشرفیوں کو تم ان ہی ( یعنی حبیب ) کے حوالے کر دینا اور کہنا کہ کیا ان کو مجھ سے زیادہ غریب آدمی نہیں ملتا تھا، خدا کے فضل سے میں ایک سائبان رکھتا ہوں، جس کے سایۂ میں آرام کرتا ہوں،