حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
اسی کے ساتھ خود قرآن کریم نے جس چیز کو جمع کرنے پر بنی آدم کو داغ دینے کی دھمکی دی ہے وہ گھوڑے، گدھے، اونٹ، زمین و اموال تجارت کچھ نہیں ہیں۔ بلکہ خصوصیت کے ساتھ ارشاد ہے۔ والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیم یوم یحمیٰ علیھا فی نار جھنم فتکویٰ بھا جباھھم وجنوبھم و ظھورھم ھذا ما کنزتم لانفسکم فذوقوا ما کنتم تکنزون۔ اور جو لوگ کہ سونا چاندی کو سینت تے ہیں اور اللہ کی راہ میں اسے خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک دکھ کا مژدہ سنا دو۔ جس دن یہ چیزیں جہنم کی آگ میں تپائی جائیں گی پھر ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں ان سے داغی جائیں گی اور ( کہا جائیگا) یہ وہی ہے جسے تم اپنے لئے جوڑ کر رکھے تھے۔ پھر آج جس چیز کو جوڑ کر رکھتے تھے اس کا مزہ چکھ لو۔ میں ان تاویلوں سے بے خبر نہیں ہوں جنھیں مفسرین اپنی کتابوں میں نقل کرتے ہیں۔ مجھے علم ہے کہ بعض لوگوں نے اس آیت کو فرضیت زکوٰۃ سے پہلے کی قرار دے کر اس کی منسوخیت کا دعویٰ کیا ہے اور بعض لوگ گرچہ آیت کو محکم قرار دیتے ہیں۔ لیکن لا ینفقونھا سے زکوٰۃ مراد لیتے ہیں یعنی جو لوگ ذہب و فضہ کو بغیر زکوٰۃ ادا کئے ہوئے جمع کرتے ہیں۔ یہ دھمکی ان کے حق میں ہے وغیرہ وغیرہ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ اگر حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کو ظاہری معنے پر محمول کررہے ہوں اور جو لوگ اس کی تنسیخ یا تخصیص خبر احاد سے کرتے ہیں ان کو اس سے روک کر یہ دعویٰ کر لیا جائے کہ ذہب و فضہ کی کل دو صورتیں ہیں یا تو اس کو استعمال میں لاؤ ورنہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو،